عراق: سرگرم کارکن ایہب الوزنی کے قتل کے بعد مظاہرے، صحافی احمد حسن شدید زخمی

ایہب الونی کے جنازے میں شریک مظاہرین نعرے لگا رہے ہیں۔ فائل فوٹو

عراق میں حکومت مخالف ایک نمایاں کارکن کے قتل کے بعد، پیر کے روز ڈاکٹروں نے بتایا کہ ایک عراقی صحافی احمد حسن کو سر میں گولیاں ماری گئیں اور وہ اب انتہائی نگہداشت میں ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ادرے 'اے ایف پی' کے مطابق، حکومتی اداروں میں بد عنوانی کے خلاف سرگرم کارکن ایہب الوزنی کو اتوار کے روز کربلا میں گولیاں ماری گئی تھیں جس کے بعد قتل کے خلاف احتجاج کرنے والے سڑکوں پر نکل آئے اور ایسی قتل و غارت اور سرکاری بے حسی کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔

ایہب الوزنی، شیعہ زیارتوں کیلئے معروف شہر کربلا میں مظاہروں کی قیادت کر رہے تھے، جہاں ایران نواز مسلح گروپوں کا راج ہے۔

الوزنی کو ہفتے کی رات ان کے گھر کے باہر موٹر سائیکل سواروں نے سائلینسر لگے پستول سے گولیاں ماری تھیں۔ یہ حملہ نگرانی کیلئے لگائے گئے کیمروں پر بھی ریکارڈ ہوا ہے۔ سیکیورٹی فورسز اور کارکنوں نے ان کے ہلاکت کی تصدیق کر دی تھی۔

الوزنی کی ہلاکت کے کچھ ہی دیر بعد، ایک صحافی احمد حسن کو بھی زخمی حالت میں ہسپتال لایا گیا، جہاں ان کی حالت نازک ہونے کے باعث انہیں انتہائی نگہداشت میں رکھا گیا ہے۔ ایک ڈاکٹر نے اے ایف پی کو بتایا کہ احمد حسن کے سر میں دو اور کندھے پر ایک گولی لگی ہے۔

ایک عینی شاہد نے بتایا کہ جنوبی عراق کے شہر دیوانیہ میں احمد کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ گھر میں داخل ہونے کیلئے اپنی گاڑی سے باہر نکلے تھے۔

وزنی کی ہلاکت کے نتیجے میں جنوبی عراق کے شہر کربلا، ناصریہ اور دیوانیہ میں مظاہرے شروع ہو گئے جن میں لوگ خون ریزی اور وسیع پیمانے پر پھیلی کرپشن کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے تھے۔

حکومت مخالف مظاہروں سے پیدا ہونے والی عراق کی کمیونسٹ پارٹی اور قوم پرست البیعت الوطنی جماعت کا کہنا ہے کہ وہ احتجاجاً اس سال اکتوبر میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات کا بائکاٹ کریں گے۔

مردہ خانے کے باہر جہاں ابتدائی طور پر ایہب الوزنی کی میت رکھی گئی تھی، ایک ویڈیو ریکارڈنگ میں ان کے ایک ساتھی کارکن نے وزنی کی ہلاکت کا الزام ایران نواز گروپوں پر عائد کیا ہے۔

سرگرم کارکن کا کہنا تھا کہ "ایرانی ملیشیاؤں نے ایہب الوزنی کو قتل کیا ہے۔" تاہم انہوں نے اپنا نام نہیں بتایا۔

اتوار کے روز ایہب الوزنی کے جنازے میں شریک سینکڑوں سوگواران نعرے لگا رہے تھے، 'ایران نکل جاؤ' اور 'ہم لوگ حکومت کو گرتا دیکھنا چاہتے ہیں'۔ جنازے میں عراقی پرچموں کی بہار نظر آ رہی تھی۔

پولیس کا کہنا ہے کہ وہ وزنی کو ہلاک کرنے والے دہشت گردوں کو ڈھونڈنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔

شیعہ لیڈر امر الحقی سمیت سیاستدانوں نے ہلاکت کی مذمت کرتے ہوئے انصاف کا مطالبہ کیا ہے۔

قبل ازیں دسمبر سن 2019 میں بھی ایہب الوزنی ایک قاتلانہ حملے میں بال بال بچے تھے، جب موٹر سائیکل پر سوار مسلح حملہ آوروں نے سائلینسر لگے پستولوں سے ان پر گولیاں چلائی تھیں، جس میں ان کے ساتھ کام کرنے والے سرگرم کارکن فہیم التائی ہلاک ہو گئے تھے۔ الوزنی، فہیم کو گھر چھوڑنے آئے تھے جب دونوں پر حملہ کیا گیا۔

عراقی حکومت کی مبینہ بد عنوانیوں اور نا اہلی کے خلاف اکتوبر سن 2019 میں قومی سطح پر چلنے والی احتجاجی تحریک میں دونوں سرگرم کارکن اہم ترین کردار ادا کر رہے تھے۔ اس تحریک میں اب تک چھ سو کارکن ہلاک ہو چکے ہیں۔

کارکنوں اور اقوام متحدہ نے بارہا ان ہلاکتوں کا الزام "ملیشیاؤں" پر عائد کیا ہے۔