پاکستا ن کے ایک مقامی رونامے سے وابستہ صحافی پر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ہونے والے حملے کی تحقیقات کے لیے اگرچہ حکومت نے ایک اعلیٰ سطح کی کمیٹی قائم کر دی ہے تاہم صحافیوں کی ایک نمائندہ تنظیم نے اس کمیٹی پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس معاملے کی تحقیقات کے لیے صحافیوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنانے کا اعلان کیا ہے۔
پاکستان کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے ہفتہ رات کو ایک مقامی نجی ٹی وی چنیل نیوز 24 سے گفتگو کرتے صحافی احمد نورانی پر ہونے والے حملے کو تشویشناک واقعہ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی۔
انہوں نے کہا کہ "اس کی تہ تک پہنچے کی ضرورت ہے، ہم نے اس کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی بنا دی ہے اس کی رپورٹ آجائے گی اور اگر ہم اس سے مطمئن نا ہوئے تواس کے بعد اس معاملے سے متعلق ایک جوڈیشل کمیشن کی ضرورت بھی پیش آ سکتی ہے۔ پھر ہم (عدالت عظمیٰ کے ) چیف جسٹس سےجوڈیشل کمیشن بنانے کی درخواست کریں گے اور اس معاملے کی تہ تک پہنچیں یہ چیز (حملہ) کسی طور پر قابل قبول نہیں ہے۔"
تاہم صحافی برادری نے حکومت کی تشکیل کردہ کمیٹی پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے احمد نورانی پر ہونے والے حملے کی تحقیقات کے لیے سینیئر صحافی ناصر زیدی کی سربراہی میں صحافیوں پر مشتمل چار رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے۔
اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب کے صدر شکیل انجم نے اتوار کو وائس امریکہ سے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ " ہم نے جو کمیٹی بنائی ہے اس سے ہم کسی نا کسی نتیجے پر پہنچیں گے اور تمام ایجنسیوں نے ہمیں بتایا ہے کہ وہ ہمارے سے تعاون کریں گی اور میراخیال ہے کہ حکومت کی کمیٹی سے بہتر ہماری کمیٹی ہے جو یہ معاملہ سلجھا سکتی ہے۔ "
دوسرے طرف فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ' آئی ایس پی آر' کے سربراہ نے بھی ٹوئٹر پر صحافی نورانی پر ہونے والے حملے کی مذمت کرتے ہوئے اس حملے کو ملک میں افراتفری پیدا کرنے کی مذموم کوشش قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ فوج اس حملے میں ملوث افراد کو پکڑنے اور انہیں انصاف کی کٹہرے میں لانے کی کوششوں کی مکمل حمایت کرتی ہے۔
احمد نوارنی پر ہونے والے حملے کی ملک کے اندر اور باہر صحافی تنظیموں اور ملک کے سیاسی قائدین نے بھی شدید مذمت کرتے ہوئے حکومت سے اس واقعے کی تحقیقات اور صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
صحافی احمد نورانی کو نامعلوم افراد نے دو روز قبل اسلام آباد میں شدید تشدد کا نشانہ بنایا اور وہ اس وقت اسلام آباد کے ایک اسپتال میں زیر علاج ہیں۔