پاکستان کے ایک سابق سفارت کار اور مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہر، مشتاق احمد مہر نے اردو سروس کے پروگرام ’جہاں رنگ‘ میں امید ظاہر کی ہے کہ موسیماتی تبدیلی کے بارے میں عالمی کانفرنس کے موقع پر مختلف رہنماؤں کے مابین ملاقاتوں کے دوران مشرقِ وسطیٰ کے موجودہ حالات پر تبادلہٴ خیال سے حالات میں بہتری آسکتی ہے اور بحرانی کیفیت کو دور کیا جا سکتا ہے۔
تاہم، واشنگٹن سے تجزیہ کار، ڈاکٹر زبیر اقبال کا کہنا تھا کہ اِن ’سائیڈ لائن‘ ملاقاتوں سے زیادہ توقعات نہیں رکھنی چاہئیں۔
اُن کے بقول، ’تمام ممالک کے اپنے اپنے مفادات ہیں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ اور ایک مربوط لائحہ عمل کی تشکیل کے لیے ضروری ہے کہ تمام ممالک اپنے مفادات ایک طرف رکھ دیں اور مل کر کام کریں‘۔
لیبیا کے شہر سرطے میں داعش کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے بارے میں مشتاق مہر کا کہنا تھا کہ ایسے میں جب داعش سرطے کا اثر و رسوخ بڑھا چکا ہے، جو اٹلی سے محض 400 میل کے فاصلے پر ہے، یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حالات خراب ہوتے جا رہے ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ اس سے پہلے کہ داعش مزید علاقوں پر قابض ہوجائے، عالمی طاقتوں کو اپنے اختلافات ایک طرف رکھتے ہوئے اس گروپ کے خلاف کارروائی کرنی چاہیئے؛ جب کہ ڈاکٹر زبیر اقبال نے ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کو رد کرتے ہوئے کہا کہ داعش کا کوئی جنگجو شام یا عراق سے لیبیا نہیں گیا۔
تاہم، اُن کے مطانق، داعش کے حامی پہلے ہی لیبیا کے شہر، سرطے میں موجود ہیں۔
تفصیل سننے کے لیے مندرجہ ذیل وڈیو رپورٹ سنئیے:
Your browser doesn’t support HTML5