سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ جمعرات کو امریکی ڈسٹرکٹ جج تانیا چٹکن کے سامنے پیش ہوں گے جو ان فسادیوں کو سخت سزا دینے والوں میں شامل ہیں جنہوں نے سابق صدر کی جانب سے انتخابات چوری کیے جانے کے بے بنیاد دعوؤں کی وجہ سے امریکی کیپٹل پر حملہ کیا تھا۔
تانیا چٹکن ایک سابق اسسٹنٹ پبلک ڈیفنڈر ہیں جنہیں سابق صدر براک اوباما نے بینچ کے لیے نامزد کیا تھا۔
انہوں نے چھ جنوری 2021 کوا مریکی کیپٹل پر حملہ کرنے والوں کو جیل کی جو سزائیں سنائی ہیں، وہ محکمۂ انصاف کے پراسیکیوٹرز کی تجویز کردہ سزاؤں سے زیادہ سخت تھیں۔
منگل کو امریکی محکمۂ انصاف کی تحقیقات کے نتیجے میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف 2020 کے امریکی صدارتی انتخابات کے نتائج تبدیل کرنے کی کوششوں کے الزامات عائد کیے گئے ہیں جو ان کے حامیوں کے کیپٹل ہل پر دھاوا بولنے کا باعث بنیں۔
ان کے خلاف حکومت کے ساتھ دھوکہ دہی اور شہادتوں میں تبدیلی کی سازش کا الزام بھی ہے۔
SEE ALSO: نئے الزامات، بائیڈن انتظامیہ کی ہراساں کرنے کی اندھادھند کوشش ہے، ٹرمپچٹکن اس سے پہلے 6 جنوری کے ایک الگ کیس میں ٹرمپ کے خلاف فیصلہ دے چکی ہیں۔
انہوں نےنومبر 2021 میں سابق صدر کی جانب سے ایگزیکٹو استحقاق کا دعویٰ کرتے ہوئے امریکی ایوان کی 6 جنوری کی کمیٹی کو دستاویزات کے اجراء کو روکنے کی درخواست کو مسترد کر دیا تھا۔
تانیا چٹکن نے ٹرمپ کے دلائل کو مسترد کر دیا کہ صدر جو بائیڈن کی جانب سے کاغذات کو نیشنل آرکائیوز کے حوالے کرنے کے لیے راہ ہموار ہونے کے بعد بھی وہ ان دستاویزات پر استحقاق رکھ سکتے ہیں۔
جج نے لکھا کہ ٹرمپ یہ دعویٰ نہیں کر سکتے کہ ان کا استحقاق "ہمیشہ کے لیے موجود رہے گا۔" اپنے فیصلے کی ایک یادگار سطر میں، چٹکن نے لکھا، "صدر بادشاہ نہیں ہوتے اور مدعی صدر نہیں ہیں۔"
SEE ALSO: امریکہ: کیپیٹل ہل حملہ کیس میں پراؤڈ بوائز گروپ کے سربراہ اور تین افراد پر فرد جرم عائدچٹکن نے کم از کم 38ایسے افراد کو سزا ئیں سنائی ہیں جنہیں کیپٹل فسادات سے متعلق مجرم ٹھہرایا گیا ہے۔
خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے عدالتی ریکارڈ کے تجزیے کے مطابق ان تمام 38 افراد کو 10 دن سے لے کر پانچ سال تک قید کی سزائیں سنائی گئیں۔
وہ واشنگٹن ڈی سی میں ان دو درجن ججوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے 6 جنوری کے دھاوے میں تقریباً 600 ملزمان کو ان کے کردار کے لیے مجموعی طور پر سزائیں سنائی ہیں۔
دوسرے ججوں نے عام طور پر ایسی سزائیں سنائی ہیں جو استغاثہ کی طرف سے درخواست کی گئی سزا سے زیادہ نرم ہیں۔
تاہم چٹکن نے اپنے 38 مقدمات میں سے 19 میں سزاؤں کے بارے میں،استغاثہ کی سفارشات سے مماثل فیصلہ کیا ہے یا اس سے تجاوز کیا ہے۔ان میں سے چار مقدمات میں، استغاثہ نے قید کی سفارش نہیں کی تھی۔
SEE ALSO: کیپٹل ہل حملہ: 'تحقیقاتی پینل جاننا چاہتا ہے کہ ٹرمپ نے مظاہرین کو کیوں نہیں روکا'انہوں نے دسمبر 2021 میں فلوریڈا کے ایک ایسےشخص کو پانچ برس کی سزا سنانے سے پہلے،جس نے پولیس افسران پر حملہ کیا تھا، کہا، "ہر روز ہم جمہوریت مخالف دھڑوں کی طرف سے تشدد کی منصوبہ بندی،اور 2024 میں تشدد کے ممکنہ خطرے کے بارے میں سن رہے ہیں۔"
چٹکن نے کہا کہ جیل کسی اور بغاوت کے خطرے کے خلاف ایک طاقتور رکاوٹ ثابت ہو سکتی ہے۔
اس وقت، یہ سزا 6 جنوری کے کسی مقدمے میں سب سے طویل تھی۔
انہوں نے کہا کہ "یہ واضح کرنا ہوگا کہ پرتشدد طریقے سے حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش، اقتدار کی پرامن منتقلی کو روکنے کی کوشش اور اس کوشش میں قانون نافذ کرنے والےاہل کاروں پر حملہ کرنے والوں کو قطعی طور پر سزا دی جائے گی۔"
SEE ALSO: کیپٹل ہل ہنگامہ آرائی: موقع پر پہنچنے والے مزید دو پولیس اہل کاروں کی خود کشیٹرمپ کے نامزد کردہ جج ٹریور میک فیڈن نے 2021 میں ایک سماعت کے دوران کہا تھا کہ محکمۂ انصاف جارج فلائیڈ کے 2020 کے قتل کے بعد نسلی ناانصافی کے مظاہروں کے دوران گرفتار کیے گئے لوگوں کے مقابلے میں،امریکی کیپٹل میں گھس جانے والوں پر بہت زیادہ سختی کر رہا ہے۔
چٹکن نے اکتوبر 2021 کی سماعت کے دوران اپنے رفیق کار کا نام لیے بغیر، میک فیڈن کے تبصرےپر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ "گزشتہ سال پورے ملک میں لوگ پولیس کے ہاتھو ں ایک غیر مسلح شخص کے پرتشدد قتل کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے جمع ہوئےتھے۔
انہوں نے مزید کہا،"لیکن شہریوں کے حقوق کے لیے، زیادہ تر پرامن طریقے سے، احتجاج کرنے والے لوگوں کے اقدامات کا موازنہ ایک پرتشدد ہجوم سے کرنا جو قانونی طور پر منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کر رہا تھا، غلط موازنہ ہےاور یہ اس بہت ہی حقیقی خطرے کو نظر انداز کرتا ہے جو 6 جنوری کے فسادات نے ہماری جمہوریت کی بنیاد کو لاحق کر دیا تھا۔"
یہ رپورٹ ایسو سی ایٹڈ پریس کی معلومات پر مبنی ہے۔