پاکستان میں سیاسی رہنماؤں کی فوج کے اعلیٰ حکام سے ملاقاتوں کے بارے میں بیانات سامنے آ رہے ہیں۔ ان بیانات سے ملک کے سیاسی ماحول میں تلخی بڑھتی جا رہی ہے۔
اب جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی ف) کے رہنما سینیٹر عبدالغفور حیدری کا انٹرویو سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے ان سے کہا تھا کہ وہ نواز شریف کے خلاف جو کچھ کر رہے ہیں اس پر جے یو آئی کے رہنما مداخلت نہ کریں۔
پاکستان فوج کی طرف سے اس معاملے پر تاحال کوئی تردید یا وضاحت سامنے نہیں آئی۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ ایک دوسرے کے راز کھولنے سے سیاست دان اور فوج دونوں ہی بدنام ہو رہے ہیں۔ سب سے بڑا نقصان اخلاقیات کا ہو رہا ہے۔
خیال رہے کہ جے یو آئی کے سینیٹر عبدالغفور حیدری نے ایک نجی ٹی وی چینل پر ایک انٹرویو کے دوران کہا ہے کہ ان کے آزادی مارچ کے موقع پر جنرل قمر جاوید باجوہ نے ایک ملاقات میں اصرار کیا کہ مولانا فضل الرحمٰن آزادی مارچ نہ کریں۔ اور وہ جو کچھ نواز شریف کے خلاف کر رہے ہیں اس میں بھی مداخلت نہ کریں۔
خیال رہے کہ مولانا فضل الرحمٰن کی جماعت نے گزشتہ برس اکتوبر کے آخر میں آزادی مارچ کیا تھا جس میں ان کی جماعت کے کارکن قافلوں کی صورت میں اسلام آباد پہنچے تھے اور اسلام آباد میں دو ہفتے تک دھرنا دیا گیا تھا۔ بعد ازاں اس مارچ کا خاتمہ ملک بھر میں دھرنے دینے کے اعلان کے ساتھ کیا گیا۔ تاہم ملک کے چند علاقوں میں دھرنوں کے بعد یہ تحریک ختم ہو گئی تھی۔ جے یو آئی نے اس مارچ میں مطالبہ کیا تھا کہ وزیرِ اعظم عمران خان مستعفی ہوں، جب کہ ملک میں فوج کی نگرانی کے بغیر آزادانہ انتخابات کرائے جائیں۔
سینیٹر عبدالغفور حیدری کا یہ انٹرویو ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب سیاست دانوں کی فوجی حکام سے ملاقاتوں کے بارے میں روزانہ نت نئے انکشافات کیے جا رہے ہیں۔
اسی طرح جب معروف صحافی طلعت حسین نے نواز شریف کے نمائندے کی آرمی چیف سے ملاقات کی خبر دی۔ تو مریم نواز نے ایسی کسی بھی ملاقات کی تردید کی۔ البتہ پاکستان کی فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے اس بارے میں ٹی وی پر آ کر بتایا کہ سندھ کے سابق گورنر اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما محمد زبیر نے دو مرتبہ آرمی چیف سے ملاقات کی، جس میں نواز شریف اور مریم نواز کے بارے میں ہی گفتگو کی گئی۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما محمد زبیر اس ملاقات سے متعلق ابھی وضاحتیں ہی دے رہے تھے کہ نواز شریف نے اپنے ٹوئٹر پیغام کے ذریعے مسلم لیگ (ن) کے تمام رہنماؤں اور کارکنان پر ایسی خفیہ ملاقاتوں پر پابندی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اب جو بھی ملاقات ہو گی وہ اعلانیہ ہو گی۔
نواز شریف کا کہنا تھا کہ اگر قومی دفاع یا آئینی تقاضوں کے لیے ضروری ہوا تو پارٹی قیادت کی رضامندی کے بعد یہ ملاقات اعلانیہ ہو گی۔
ان کے بقول حالیہ واقعات نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ کس طرح بعض ملاقاتیں سات پردوں میں چھپی رہتی ہیں اور بعض کی تشہیر کر کے انہیں اپنی مرضی کے معنی پہنائے جاتے ہیں۔
ان ملاقاتوں کے بارے میں اب تک پاکستانی فوج کے ترجمان کی طرف سے مزید کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔
تاہم وزیرِ اعظم عمران خان کی کابینہ میں شامل وزیرِ ریلوے شیخ رشید احمد، جنہوں نے پہلی ملاقاتوں کا احوال بھی بیان کیا تھا، اس وقت بھی ملاقاتوں کے حوالے سے تبصرے کر رہے ہیں۔ شیخ رشید احمد کا کہنا ہے کہ ابھی تو میں نے صرف ملاقاتوں کا تذکرہ کیا ہے۔ اگر ٹیلی فون ڈیٹا آؤٹ کر دیا تو اس ملک میں قیامت آ جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک کی فوج کے سربراہ اور ڈی جی آئی ایس آئی سے ملنے میں کیا برائی ہے۔
شیخ رشید نے دعویٰ کیا ہے کہ حزبِ اختلاف کے لوگ سینیٹ انتخابات سے پہلے ہنگامہ آرائی کرنا چاہتے ہیں۔ حزبِ اختلاف نہ دھرنا دے گی اور نہ ہی استعفیٰ اور نہ ہی وزیرِ اعظم کے خلاف پارلیمان میں عدم اعتماد کی تحریک لائی جائے گی۔
شیخ رشید نے خود کو پاکستان کی فوج کا ترجمان کہے جانے پر کہا ہے کہ مجھے فخر ہے کہ میں پاکستانی فوج کا ترجمان ہوں۔ 'را' کا ایجنٹ نہیں ہوں۔
دوسری طرف مریم نواز ٹوئٹر پر ایک بار پھر متحرک نظر آ رہی ہیں۔ انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی ایک پرانی ویڈیو شئیر کی، جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ آئی ایس آئی نے ان کے چیف جسٹس سے رابطہ کیا کہ نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف کیس سننے کے لیے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو بینچ میں شامل نہ کیا جائے۔
مریم نواز کی شیئر کی گئی اس ویڈیو میں عبدالغفور حیدری کا انٹرویو بھی شامل تھا۔
اس ویڈیو کے ساتھ مریم نواز نے ٹوئٹ کیا کہ سب جانتے تو تھے ہی۔ مگر اس تازہ ترین انکشاف سے اس بات پر مہرِ تصدیق ثبت ہو گئی کہ نواز شریف کی برطرفی، نااہلی، تضحیک اور سزا ناقابلِ تردید حقیقت ہے اور ایک ہی سازش کا حصہ ہیں۔
ان کے بقول نواز شریف سزا یافتہ نہیں انتقام یافتہ ہیں۔
نقصان کس کو ہو رہا ہے؟
اس تمام صورتِ حال میں کس چیز کا نقصان سب سے زیادہ ہو رہا ہے؟ اس بارے میں بات کرتے ہوئے سابق وزیرِ اطلاعات و نشریات اور سینیٹر جاوید جبار نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس میں سب سے بڑا نقصان اخلاقیات کا ہو رہا ہے۔
ان کے بقول رہنماؤں کے درمیان گفتگو کا معیار قائم رہنا چاہیے تا کہ نوجوان نسل کو سیاست میں دلچسپی ہو۔ نئی نسل کے ذہن میں سیاسی رہنماؤں اور باقی سب کے لیے مثبت تاثر ہو کہ سیاست کی قدریں کیا ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت سیاسی رہنما نوجوانوں کو مایوس کر رہے ہیں اور اس طرح انہیں سیاست میں آنے سے روک رہے ہیں۔ لہذا اختلافات اور کشیدگی کو روکنا بہت ضروری ہے۔
اس سوال پر کہ کیا اس کشیدگی کے خاتمے کے لیے سب کو اپنے آئینی دائرہ میں کام نہیں کرنا چاہیے؟ جاوید جبار کا کہنا تھا کہ دائرہ میں رہنا بعض دفعہ مشکل ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں بہت سی مشکلات رہی ہیں اور سول انتظامیہ اور ملٹری کے درمیان کشیدگی رہی ہے۔ لیکن یہ بہانہ نہیں بن سکتا کہ اس میں ایک دوسرے کے خلاف اس طرح بولا جائے۔
ان کے بقول یہی تو اصل معاملہ ہے کہ دباؤ کے باوجود ایسے ماحول سے بچنا ہی اصل سیاست ہے۔
انہوں نے کہا کہ سب کو اخلاقیات اور اپنی قدروں کو سامنے رکھنا ہو گا تاکہ ہم اپنی آئندہ نسل کو بہتر جمہوریت دے سکیں۔
تجزیہ کار سلمان عابد کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ اور سیاست دان ایک دوسرے کے بارے میں جو بیانات دے رہے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں کس قدر جمہوریت ہے۔ کس قدر آئینی دائرہ کار کے اندر رہ کر کام کیا جاتا ہے۔
ان کے بقول یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہماری سیاست ایک خاص مقصد کے تحت ہوتی ہے۔ چاہے اس میں سیاست دان ہوں یا اسٹیبلشمنٹ۔
انہوں نے کہا کہ اب جس طرح یہ خفیہ باتیں سامنے آ رہی ہیں، اس سے ہمارا جمہوری اور آئینی چہرہ مجروح ہوا ہے۔
سلمان عابد کا مزید کہنا تھا کہ یہ کسی کی جیت یا ہار نہیں، بلکہ اس کا نقصان ریاست، سیاست اور جمہوریت کو ہو رہا ہے۔