اطلاعات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس فرخ عرفان نے اپنا استعفیٰ صدر پاکستان کو بھجوا دیا ہے۔
انہوں نے اپنے استعفٰے سے سپریم جوڈیشل کونسل کو بھی آگاہ کر دیا گیا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کا جج بننے سے قبل وہ لندن میں وکالت کرتے تھے۔ جسٹس فرخ عرفان کا نام پاناما لیکس میں آف شور کمپنیاں بنانے والوں کی فہرست میں شامل تھا۔جسٹس فرخ عرفان کے خلاف ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں بھی زیر سماعت ہے۔
قانونی ماہرین اُن کے استعفٰے کو مختلف تناظر میں دیکھتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے وکیل اے کے ڈوگر کے نزدیک جسٹس فرخ عرفان کو استعفٰی نہیں دینا چاہیے تھا بلکہ اپنے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرینس کا جواب دینا چاہیے تھا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اے کے ڈوگر نے کہا کہ جسٹس فرخ عرفان کو اپنے خلاف الزام کا سامنا کرنا چاہیے تھا اور سپریم جوڈیشل کونسل میں اپنا موقف بیان کرتے ہوئے یہ ثابت کرتے کہ اُن سے منسوب الزام غلط ہے۔
“استعفٰی دینے سے مراد یہ ہے کہ اُن کے خلاف جو کہا جا رہا ہے وہ جزوی پر یا مکمل طور پر درست ہے۔ پانامہ لیکس میں نام صحیح نہیں ہوتے۔ وہ ثابت کرنے پڑتے ہیں کہ وہ نام صحیح ہیں یا غلط ہیں۔ پانامہ لیکس میں نام کی موجودگی پر عدالت نے دونوں اطراف کی بات سن کر یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ درست ہیں یا نہیں”۔
سپریم کورٹ کے وکیل آصف باجوہ جسٹس فرخ عرفان کے استعفٰی دینے کے فیصلے کو درست خیال کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک جسٹس فرخ عرفان کو بہت پہلے اپنے منصب سے الگ ہو جانا چاہیے تھا تا کہ عدلیہ پر تنقید نہ ہوتی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے آفتاب باجوہ نے کہا کہ جب وہ جج بنے تو اُن کی آف شور کمپنیاں تھیں۔ اگر وہ اِس بات کا سپریم جوڈیشل کونسل میں سامنا کرتے تو فیصلہ اُن کے خلاف آنا تھا کیونکہ اُن کی آف شور کمپنی تو ثابت ہو چکی ہے۔ جس پر سپریم جوڈیشل کونسل نے انہیں نکال دینا تھا۔ لیکن اب وہ ریٹائرڈ جج کہلائیں گے اور ریٹائرمنٹ کے تمام فوائد حاصل کر سکیں گے۔
“سپریم جوڈیشل کونسل کے ساتھ ہائی کورٹ میں ججوں کے احتساب کے لیے بنائے جانے والے ادارے کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔
آفتاب باجوہ سمجھتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے ججوں میں تو اِتنی کرپشن نہیں ہے لیکن لوئر کورٹس میں کرپشن زیادہ ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو پریشانی کا سامنا رہتا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ کے سابق جج اور سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج شاہد صدیقی سمجھتے ہیں کہ جسٹس فرخ عرفان پر اختیارات کے ناجائز استعمال کا الزام نہیں تھا۔ وہ صرف جج بنتے وقت اپنے اثاثے ڈکلیئر نہیں کر سکے تھے۔ جس پر ایک اسکینڈل بنایا گیا اور پانامہ لیکس میں ان کا نام آ گیا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے جسٹس ریٹائرڈ شاہد صدیقی نے کہا کہ استعفٰی دے کر اُنہوں نے اچھا فیصلہ کیا ہے اور وہ اِس پریشانی سے نکل آئے ہیں۔
جسٹس ریٹائرڈ شاہد صدیقی نے بتایا کہ جسٹس فرخ عرفان جج بننے سے قبل دبئی اور انگلینڈ میں وکالت کرتے تھے اور کارپوریٹ لا کے ایک اچھے وکیل تھے۔ اِنہوں نے بہت رقم کمائی اور وہیں شیئر خریدے۔
“جس حد تک وہ اپنے استعفٰے میں تاخیر کر سکتے تھے اُنہوں نے کی اور سمجھانے کی کوشش کی کہ میرے اثاثوں کا تعلق پاکستان سے نہیں ہے، وہ باہر رہ کر بنائے تھے، لیکن سپریم جوڈیشل کونسل یہ بات ماننے کو تیار نہیں ہے”۔
جسٹس فرخ عرفان ٹیکسٹائل ملز اور فیمس برانڈ کے مالک ہونے کے ساتھ ملبوسات بنانے والی ایک امریکی کمپنی کے پاکستان میں فرنچائز ڈائریکٹر ہیں۔ پانامہ لیکس میں اُن کا نام آنے پر پاکستان کی سیاسی جماعتیں دبے لفظوں میں اُن پر تنقید کیا کرتی تھیں۔
پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو پانامہ لیکس میں نام آنے اور انتخابات سے قبل اِن کمپنیوں کو اپنے اثاثے کے طور پر ظاہر نہ کیے جانے پر عدالت عظمٰی نے اپنے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔
جسٹس فرخ عرفان 20 جنوری 2010 میں لاہور ہائی کورٹ میں بطور ایڈیشنل جج تعینات ہوئے تھے۔ ان کی مدت ملازمت 22 جون 2022 کو مکمل ہونا تھی۔