پاکستان کے نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ نے امید ظاہر کی ہے کہ ملک میں عام انتخابات کا انعقاد نئے سال میں ہو جائے گا۔ انہوں نے ملک کی طاقت ور فوج کے حوالے سے اس امکان کو مسترد کیا کہ وہ انتخابی نتائج میں اس لیے گڑ بڑ کرے گی تا کہ یہ یقینی ہو سکے کہ جیل میں قید سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کو کامیابی نہ ملے۔
امریکہ کے خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کو دیے گئے انٹرویو میں نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ انتخابات کا انعقاد فوج کا نہیں الیکشن کمیشن کا کام ہے اور الیکشن کمیشن کے سربراہ کی تعیناتی عمران خان نے خود کی تھی۔ ان کے بقول چیف الیکشن کمشنر عمران خان کے خلاف کیوں ہوں گے؟
گزشتہ سال اپریل 2022 میں عمران خان کی حکومت کو تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے ختم کر دیا گیا تھا اور ملک میں سیاسی جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی حکومت قائم ہوئی تھی۔
عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد ملک میں سیاسی بحران شدت اختیار کر گیا تھا۔ سابق وزیرِ اعظم کو رواں برس اگست میں مبینہ کرپشن کے الزامات میں گرفتار کیا گیا جب کہ ایک عدالت نے ان کو تین برس قید کی سزا سنائی تھی۔
عمران خان کی سزا کو اعلیٰ عدالت معطل کر چکی ہے لیکن وہ اب بھی قید میں ہیں۔
پاکستان کو اس وقت اپنی تاریخ کے بد ترین معاشی بحران کا سامنا ہے جب کہ پچھلے سال گرمیوں میں آنے والے سیلاب کی وجہ سے ہونے والے نقصانات سے بھی ملک نبرد آزما ہے۔ اس سیلاب سے کم از کم 1700 افراد ہلاک ہوئے تھے جب کہ لاکھوں گھر تباہ اور زرعی اراضی متاثر ہوئی تھی۔
یہ بھی پڑھیے
امن و امان اور سرحدی صورتِ حال کے باعث انتخابات التوا کا شکار نہیں ہوں گے: نگراں وزیرِ اعظم 'پی ٹی آئی کے انتخابات میں حصہ لینے پر کوئی پابندی نہیں'نگراں حکومت کو تنقید کی پروا نہیں، نیت درست ہے: وزیرِ اعظم کاکڑالیکشن کمیشن نے جمعرات کو اعلان کیا تھا کہ انتخابات کا انعقاد اگلے سال جنوری کے آخری ہفتے میں کیا جائے گا جس کا انعقاد آئینی طور پر نومبر میں ہونا چاہیے تھا۔
انوارالحق کاکڑ گزشتہ ماہ اس وقت بطور سینیٹر مستعفی ہوئے تھے جب انہیں سابق وزیرِ اعظم شہباز شریف اور اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض نے نگراں وزیرِ اعظم منتخب کیا تھا تا کہ انتخابات کے انعقاد کے علاوہ نئی حکومت کے قیام تک حکومتی امور کو چلا سکیں۔
انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ جب کمیشن انتخابات کی حتمی تاریخ کا اعلان کرے گا تو حکومت مطلوبہ امداد، فنڈز، سیکیورٹی اور دیگر وسائل فراہم کرے گی۔
نگراں وزیرِ اعظم کا اس سوال پر کہ کیا وہ ججز سے عمران خان کی سزا کالعدم کرنے کی سفارش کریں گے تاکہ وہ انتخابات میں حصہ لے سکیں؟ پر کہنا تھا کہ وہ عدلیہ کے فیصلوں میں مداخلت نہیں کریں گے۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے زور دیتے ہوئے کہ کہا کہ عدلیہ کو سیاسی مقاصد کے لیے آلۂ کار کے طور پر استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ ذاتی رنجش کی وجہ سے کسی کو انتقام کا نشانہ نہیں بنا رہے۔ ان کے بقول وہ یقینی بنائیں گے کہ قانون سب کے لیے یکساں ہو۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ چاہے وہ عمران خان ہو یا کوئی اور سیاست دان، جو اپنے سیاسی برتاؤ سے ملکی قوانین کی خلاف ورزی کرے گا، تو قانون کے نفاذ کو یقینی بنانا ہو گا۔ وہ اسے سیاسی امتیاز نہیں کہہ سکتے۔
ان کا کہنا تھا کہ شفاف انتخابات کا انعقاد عمران خان اور پی ٹی آئی کے بغیر بھی ہو سکتا ہے۔ عمران خان مئی میں ہونے والی گرفتاری کے بعد ہونے والی غیر قانونی حرکات کے سبب قید ہیں۔
کاکڑ کا کہنا تھا کہ عمران خان کی جماعت کے ہزاروں افراد جو کہ غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث نہیں تھے، سیاسی عمل کو آگے بڑھائیں گے اور وہ انتخابات میں حصہ لیں گے۔
SEE ALSO: جب نوے دن میں ہونے والے انتخابات سات سال تک ملتوی ہو گئے’اے پی‘ کے مطابق پاکستان میں حکومت کو اقتدار میں لانے اور گرانے میں فوج کا اہم کردار سمجھا جاتا رہا ہے۔
عمران خان کے کچھ حامیوں کا ماننا ہے کہ پاکستان میں حقیقت میں حکمران فوج ہے اور ملک میں جمہوریت خطرے میں ہے۔
انوار الحق کاکڑ کے بارے میں بھی عام تاثر ہے کہ ان کے فوج کے ساتھ مبینہ طور پر قریبی تعلقات ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انتخابات میں فوج کی پیرا پھیری جیسے مبینہ الزامات پاکستان کے سیاسی کلچر کا حصہ ہیں جس پر وہ کوئی توجہ نہیں دیتے۔
ان کے بقول پاکستان کو سول ملٹری تعلقات میں چیلنجز کا سامنا ہے اور اس سے وہ انکار نہیں کرتے۔
نگراں وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ اس عدم توازن کی بہت سی وجوہات ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
نگراں حکومت ایک ماہ تک چلانے کے بعد اب وہ کہتے ہیں کہ سول اداروں کی پچھلی دہائیوں کے دوران کارکردگی میں گراوٹ آئی ہے جبکہ فوج نظم و ضبط کی حامل ہے اور اس کی تنظیمی صلاحیتوں میں گزشتہ چار دہائیوں کے دوران بہتری آئی ہے۔
انوار الحق کاکڑ کے بقول حل یہ ہے کہ موجودہ فوجی تنظیم کو کمزور کرنے کے بجائے سویلین اداروں کی کارکردگی کو بتدریج بہتر کرنا چاہیے کیوں کہ فوج کو کمزور کرنے سے ملک کا کوئی مسئلہ حل نہیں ہو گا۔