سندھ کے دارالحکومت اور پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے شہر کراچی کو ان دنوں ہیٹ ویو کا سامنا ہے۔
کراچی والوں نے پہلی بار ہیٹ ویو کا نام 2015 میں سنا تھا۔ جب سمندری ہوائیں بند ہو گئی تھیں۔ شہر میں شدید گرمی اور حبس سے مرنے والوں کی تعداد سینکڑوں تک جا پہنچی تھی۔
ملک کے اس ساحلی شہر کو مختلف موسموں میں اس کی شدت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کبھی بارشوں کے زیادہ ہونے سے اربن فلڈنگ کی صورتِ حال بن جاتی ہے۔ تو کبھی اکتوبر کے مہینے میں ہیٹ ویو آ رہی ہے۔
پاکستان کو عمومی طور پر ماحولیاتی تبدیلیوں کا سامنا ہے۔ البتہ ملک کا سب سے بڑا شہر ہونے کے باعث کراچی میں ان تبدیلیوں کے اثرات زیادہ محسوس کیے جا رہے ہیں۔
اکتوبر میں ہیٹ ویو آنے کی کیا وجہ ہے؟
محکمۂ موسمیات کے ڈائریکٹر سردار سرفراز کے مطابق اکتوبر، مئی کے بعد دوسرا گرم ترین مہینہ کہلاتا ہے۔ اس وقت کراچی کو جس ہیٹ ویو کا سامنا ہے اسے معتدل کہا جا سکتا ہے۔
حالیہ ہیٹ ویو کے دوران درجۂ حرارت 39 سے 42 ڈگری سینٹی گریڈ تک جانے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔
اس سے قبل 1951 میں اکتوبر میں درجہ حرارت 43.3 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کا حصہ ہے۔ اس کے بعد 1984 میں 42.6 سینٹی گریڈ بھی ریکارڈ کیا جا چکا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
محکمۂ موسمیات کے مطابق حالیہ ہیٹ ویو کی وجہ وسطی ایشیا اور افغانستان میں ہوا کا دباؤ زیادہ ہونا ہے۔ اس کی وجہ سے شمال سے ہوائیں بلوچستان کے صحرائی علاقوں سے ہوتی ہوئی کراچی تک پہنچ رہی ہیں۔
محکمۂ موسمیات کے حکام کا کہنا ہے کہ گرم اور خشک ہواؤں کے سبب کراچی میں گرمی کی شدت میں اضافہ ہوا ہے، جس کے سبب درجۂ حرارت 40 ڈگری تک رہنے کا امکان ہے۔ 2015 کی ہیٹ ویو جون میں آئی تھی جس میں ہوا میں نمی کا تناسب زیادہ تھا تو ہیٹ ویو کی شدت بھی زیادہ تھی۔
اکتوبر میں شمال مشرق سے چلنے والی ہواؤں کے سبب گرمی زیادہ محسوس ہوتی ہے جب کہ کراچی میں جنوب مغربی سمت سے آنے والی ہوائیں جنہیں سمندری ہوائیں کہا جاتا ہے، اس سے موسم بہتر رہتا ہے۔
کیا موسم کی شدت موسمیاتی تبدیلی کا نتیجہ ہے؟
جامعہ کراچی کے شعبۂ ماحولیات کے ڈاکٹر ظفر اقبال کے مطابق کراچی میں اکتوبر عموماََ گرم اور خشک ہی ہوتا ہے۔ لیکن اب یہ بھی دیکھا جا رہا ہے کہ کراچی میں گرمی کا دورانیہ بڑھتا جا رہا ہے۔
ان کے بقول اس کی ایک وجہ شہروں کا تیزی سے بڑھنا اور اس میں کنکریٹ کا زیادہ استعمال ہے۔
ڈاکٹر ظفر اقبال کہتے ہیں کہ جب اونچی عمارتیں بنائی جائیں گی۔ تو وہ زیادہ گرمی جذب کرتی ہیں اور پھر یہی گرمائش عمارتیں خارج بھی کر رہی ہوتی ہیں۔ اس سے بھی فرق پڑتا ہے۔ یوں قدرتی گرمی کنکریٹ کے سبب مزید شدید ہو جاتی ہے۔
انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر (آئی یو سی این) سے وابستہ رہنے والے ماہرِ ماحولیات رفیع الحق کہتے ہیں کہ اب ہمارا طرزِ زندگی جدت اختیار کر گیا ہے۔ شہر کنکریٹ کا جنگل لگنے لگا ہے جس کا یقیناََ ماحول اور موسم پر اثر پڑ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب موسم کی شدت دیکھنے میں آرہی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کے بقول پہلے شہر میں پارک ہوا کرتے تھے۔ اب وہاں بھی عمارتیں تعمیر ہو چکی ہیں۔ پہلے پارک کا ایک فطرتی ماحول آبادی کا حصہ ہوا کرتا تھا جہاں بھنورے، پرندے، تتلیاں، ڈریگن فلائی نظر آیا کرتے تھے۔ یہ سب ماحول کا حصہ تھے۔
انہوں نے کہا کہ موسم صرف ماحولیاتی تبدیلی کا ہی نہیں، تمدنی تبدیلی کا بھی شکار ہو چکے ہیں۔ ہم نے خود کو ماحول اور فطرت سے دور کر لیا ہے۔ بلند عمارتوں، گاڑیوں اور مشینوں کا استعمال بڑھ گیا ہے۔
محکمۂ موسمیات کے ڈائریکٹر سردار سرفراز کہتے ہیں کہ پوری دنیا میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات محسوس کیے جا رہے ہیں۔ پاکستان بھی ان میں شامل ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آب و ہوا کی تبدیلیوں کے اثرات کا جائزہ لینے والے ادارے 'جرمن واچ' کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کے حساب سے پاکستان کا آٹھواں نمبر ہے۔ 2010 سے لے کر اب تک پاکستان بہت متاثر ہوا ہے جس میں موسم کی شدت میں اضافہ، سیلاب اور بارشوں کا بہت زیادہ ہونا شامل ہے۔ اس سے معلوم ہو رہا ہے کہ موسم کے سیٹ پیٹرن تبدیل ہو گئے ہیں۔
موسم کی شدت کو کم کیسے کیا جا سکتا ہے؟
جامعہ کراچی کے شعبۂ ماحولیات کے ڈاکٹر ظفر اقبال کے مطابق اگر ان عمارتوں کو جو سورج کی تپش کا براہِ راست سامنا کر رہی ہیں، گرین کور یعنی پودوں اور درختوں کی مدد سے بھر دیا جائے۔ تو عمارات سے تپش کا اخراج نہیں ہو گا اور پھر قدرتی طور پر گرمی کا احساس کم ہو گا۔
وہ کہتے ہیں کہ عمارتوں کا رنگ بھی ہلکا ہونا چاہیے۔ اگر یہ رنگ گہرے ہوں گے تو یہ بھی سورج کی روشنی اور گرمی کو اپنے اندر جذب کر کے اسے خارج کریں گے جس سے گرمی اور بڑھے گی۔
ڈاکٹر ظفر اقبال کے مطابق بڑے شہروں میں عمارتوں کے گرد گرمی کا ایک ہالہ بن جاتا ہے جسے 'اربن ہیٹ آئی لینڈ' کہا جاتا ہے۔ شہروں کے مضافات کی نسبت سے دیکھا جائے تو شہر کے اندر موجود ان عمارتوں کے گرد گرمی زیادہ ہوتی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے کہا کہ سڑکیں بھی گرمی جذب کر رہی ہوتی ہیں اور جب شہر میں سڑکیں زیادہ ہوں جن کا رنگ سیاہ ہوتا ہے۔ تو اس سے بھی گرمی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کا طریقۂ کار یہ ہے کہ اگر سڑکوں کے کناروں ہر سایہ دار درخت لگا دیے جائیں اور ان کا سایہ سڑکوں پر ہو تو یہ گرم نہیں ہوں گی۔
ماہرِ ماحولیات رفیع الحق کے مطابق قدرتی ماحول کی طرف واپسی بہت اہم ہے۔ رویوں کو تبدیل کرنا چاہیے۔ سہل پسندی اور مشینی زندگی سے نکل کر سبزے اور کاربن سنگ کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ جہاں پیدل سفر ممکن ہو وہاں ایندھن کا استعمال کم کیا جائے۔