کراچی کی انسدادِ دہشت گردی عدالت نے شمالی وزیرستان سے رکن قومی اسمبلی اور پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما علی وزیر سمیت 12 ملزمان کو نفرت انگیز اور ملکی اداروں کے خلاف تقاریر کے الزامات سے بری کردیا ہے۔
عدالت نے کہا ہے کہ سرکاری وکلا علی وزیر اور دیگر ملزمان کے خلاف ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
علی وزیر کے خلاف اشتعال انگیز اور ریاست مخالف تقاریر سے متعلق مجموعی طور پر چار مقدمات درج ہیں, جس میں سے کراچی میں تین اور ایک مقدمہ خیبرپختونخوا کے شہر بنوں میں درج ہے۔
کراچی میں درج تین مقدمات میں سے دو میں وہ پہلے ہی ضمانت حاصل کر چکے ہیں اور منگل کو تیسرے مقدمے میں عدالت نے انہیں بری کردیاہے۔
SEE ALSO: رکنِ اسمبلی علی وزیر کی رہائی کے لیے سندھ اسمبلی کے سامنے دھرنا جاری، ان کے کمسن بچےبھی شریکعلی وزیر جیل سے باہر نہیں آ سکیں گے
علی وزیر کو بنوں میں درج مقدمے میں اب تک ضمانت نہیں ملی جس کی وجہ سے ان کی رہائی عمل میں نہیں آسکی ہے۔
منگل کو کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نےعلی وزیر سمیت ملا نصیر، نور اللہ ترین، سرور کاکڑ اور دیگر کو اداروں کے خلاف تقاریر کے الزامات سے بری کیا ہے۔
واضح رہے کہ علی وزیر نے چھ دسمبر 2020 کو کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ میں پشتون تحفظ موومنٹ کے ایک جلسے سے خطاب کیا تھا جس کے بعد کراچی پولیس نے ان کے خلاف اشتعال انگیز تقریر کا مقدمہ درج کیا تھا۔
اسی مقدمے میں پشاور پولیس نے 16 دسمبر 2020 کو انہیں حراست میں لے کر سندھ پولیس کے حوالے کر دیا تھا۔
علی وزیر کون ہیں؟
علی وزیر خیبر پخنونخوا میں ضم ہونے والے سابقہ قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان سے آزاد حیثیت سے منتخب رکن قومی اسمبلی ہیں جو پہلی بار رکن قومی اسمبلی بنے ہیں۔ وہ احمد زئی وزیر قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔
انہوں نے ڈیرہ اسماعیل خان کی گومل یونی ورسٹی سے تعلیم مکمل کی۔ وہ خود کو دائیں بازو کی سیاست پر یقین رکھنے والا سیاست دان قرار دیتے ہیں۔
اپنے سیاسی نظریات اور اسٹیبلشمنٹ کے سیاست میں مبینہ کردار پر کھل کر اظہارِ خیال کرنے پر انہیں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے ریاستی اداروں کے خلاف مجرمانہ سازش کے علاوہ ریاستی اداروں کے خلاف ہتک آمیز بیانات بھی دیے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں علی وزیر کے والد، بھائیوں، چچا، کزنز سمیت کم ازکم 18 افراد مختلف واقعات میں ہلاک ہوچکے ہیں۔