فائر بریگیڈ کے حکام کے مطابق آگ ہفتے کی شب 12 بجے کے بعد بھڑکی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے پوری عمارت کو اپنی لیپٹ میں لے لیا۔
اسلام آباد —
پاکستان کے اقتصادی مرکز کراچی میں پلاسٹک بیگ بنانے والی فیکٹری میں بھڑکنے والی آگ پر حکام کے مطابق 18 گھنٹوں کی مسلسل کوشش کے بعد اسے مزید پھیلنے سے روک دیا گیا ہے۔
فائر بریگیڈ کے حکام کے مطابق آگ ہفتے کی شب 12 بجے کے بعد بھڑکی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے پوری عمارت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
آگ بجھانے والے عملے کے درجنوں اہلکاروں نے مسلسل کوششوں کے بعد اتوار کو آتشزدگی پر قابو پایا۔
کراچی کی فیکٹری میں آگ بجھانے میں مصروف فائر بریگیڈ کے ایک عہدیدار توفیق احمد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ آگ کی شدت ابتدا ہی میں غیر معمولی تھی جسے بجھانے
کے لیے تمام دستیاب مشینری طلب کر لی گئی۔
اُنھوں نے بتایا کہ اتوار کی شام تک آگ پر قابو پانے کے بعد ’کولنگ‘ کا عمل کئی گھنٹوں تک جاری رہے گا جس کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ کوئی شعلہ دوبارہ نا بھڑکے۔
فیکٹری میں عید کی چھٹیوں کے باعث عملے کے لوگ نہیں تھے جس کی وجہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ تاہم آگ بجھانے میں مصروف عملے کے اراکین اور عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ شدید آگ کے باعث فیکٹری کی دیواروں میں دراڑیں پڑ گئی ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس شدت کی آگ کو محض پانی سے بجھانا ممکن نہیں ہوتا اور اس کے لیے ایک مخصوص مواد کی ضرورت ہوتی ہے جو آگ کو مزید بھڑکنے اور پھیلنے سے روکتا ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ فیکٹریوں میں عموماً آتشزدگی پر ابتدا ہی میں قابو پانے کے لیے مناسب انتظام نا ہونے کی وجہ سے آگ تیزی سے پھیل جاتی ہے۔ لیکن فیکٹری مالکان کہتے ہیں کہ اگر فائر بریگیڈ کے محکمے کے پاس جدید مشینری ہو اور وہ جائے حادثہ پر جلد از جلد پہنچ جائیں تو نقصانات کو کم کیا جا سکتا ہے۔
گزشتہ ماہ 11 ستمبر کو کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن میں گارمنٹس کی ایک فیکٹری میں ملک کی تاریخ کی بدترین آتشزدگی سے 250 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
جس کے بعد عالمی ادارہ محنت ’آئی ایل او‘ اور مزدوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی مقامی تنظیموں کی طرف سے محنت کشوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے مطالبات میں تیزی آئی تھی۔
آئی ایل او نے حال ہی میں پاکستانی حکومت، صنعت کاروں اور مزدوروں کی نمائندہ تنظیم کے ہمراہ ملک میں فیکٹری ورکرز کی حفاظت کو یقینی بنانے کے ایک منصوبے کو حتمی شکل دی ہے تاکہ حادثات سے بچا جا سکے۔
مزدورں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں یہ مطالبہ بھی کرتی آئی ہیں کہ فیکٹریوں میں آتشزدگی کی تحقیقات کو منظر عام پر لایا جائے تاکہ خامیوں کی نشاندہی اور قصور واروں کو سزا دلوائی جا سکے۔
فائر بریگیڈ کے حکام کے مطابق آگ ہفتے کی شب 12 بجے کے بعد بھڑکی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے پوری عمارت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
آگ بجھانے والے عملے کے درجنوں اہلکاروں نے مسلسل کوششوں کے بعد اتوار کو آتشزدگی پر قابو پایا۔
کراچی کی فیکٹری میں آگ بجھانے میں مصروف فائر بریگیڈ کے ایک عہدیدار توفیق احمد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ آگ کی شدت ابتدا ہی میں غیر معمولی تھی جسے بجھانے
کے لیے تمام دستیاب مشینری طلب کر لی گئی۔
اُنھوں نے بتایا کہ اتوار کی شام تک آگ پر قابو پانے کے بعد ’کولنگ‘ کا عمل کئی گھنٹوں تک جاری رہے گا جس کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ کوئی شعلہ دوبارہ نا بھڑکے۔
فیکٹری میں عید کی چھٹیوں کے باعث عملے کے لوگ نہیں تھے جس کی وجہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ تاہم آگ بجھانے میں مصروف عملے کے اراکین اور عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ شدید آگ کے باعث فیکٹری کی دیواروں میں دراڑیں پڑ گئی ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس شدت کی آگ کو محض پانی سے بجھانا ممکن نہیں ہوتا اور اس کے لیے ایک مخصوص مواد کی ضرورت ہوتی ہے جو آگ کو مزید بھڑکنے اور پھیلنے سے روکتا ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ فیکٹریوں میں عموماً آتشزدگی پر ابتدا ہی میں قابو پانے کے لیے مناسب انتظام نا ہونے کی وجہ سے آگ تیزی سے پھیل جاتی ہے۔ لیکن فیکٹری مالکان کہتے ہیں کہ اگر فائر بریگیڈ کے محکمے کے پاس جدید مشینری ہو اور وہ جائے حادثہ پر جلد از جلد پہنچ جائیں تو نقصانات کو کم کیا جا سکتا ہے۔
گزشتہ ماہ 11 ستمبر کو کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن میں گارمنٹس کی ایک فیکٹری میں ملک کی تاریخ کی بدترین آتشزدگی سے 250 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
جس کے بعد عالمی ادارہ محنت ’آئی ایل او‘ اور مزدوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی مقامی تنظیموں کی طرف سے محنت کشوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے مطالبات میں تیزی آئی تھی۔
آئی ایل او نے حال ہی میں پاکستانی حکومت، صنعت کاروں اور مزدوروں کی نمائندہ تنظیم کے ہمراہ ملک میں فیکٹری ورکرز کی حفاظت کو یقینی بنانے کے ایک منصوبے کو حتمی شکل دی ہے تاکہ حادثات سے بچا جا سکے۔
مزدورں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں یہ مطالبہ بھی کرتی آئی ہیں کہ فیکٹریوں میں آتشزدگی کی تحقیقات کو منظر عام پر لایا جائے تاکہ خامیوں کی نشاندہی اور قصور واروں کو سزا دلوائی جا سکے۔