پاکستان کے اقتصادی مرکز کراچی کی ایک ذیلی عدالت نے گزشتہ ماہ شہر میں آتشزدگی کا شکار ہونے والے فیکٹری کے مالکان کی ضمانت مسترد کر دی۔
عدالت نے فیکٹری کے مالک دو بھائیوں ارشد بھائیلہ اور شاہد بھائیلہ کی ضمانت تو مسترد کر دی لیکن ان کے والد عبدالعزیز بھائیلہ کی ضمانت کی درخواست کو منظور کر لیا گیا۔
بعد ازاں ارشد اور شاہد کو پولیس نے گرفتار کر لیا۔
کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن میں گیارہ ستمبر کو گارمنٹس کی ایک فیکٹری میں ملک تاریخ کی بدترین آتشزدگی سے 250 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
پولیس نے ہفتہ کو عدالت میں عبوری چلان پیش کیا جس میں کہا گیا کہ آگ بھٹرکنے کے بعد مالکان اور جنرل مینجر کے کہنے پر فیکٹری کے دروازے بند کیے گئے۔
آتشزدگی کے بعد ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں بھی یہ ہی کہا گیا تھا کہ بڑی تعداد میں افراد کی ہلاکت کی وجہ فیکٹری کے دروازوں کی بندش تھی اور باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔
اس واقعہ سے چند گھنٹے قبل لاہور میں جوتوں کی ایک فیکٹری میں بھی آگ لگنے سے کم از کم 23 مزدور ہلاک ہو گئے تھے۔
فیکٹریوں میں آتشزدگی کے ان واقعات کے بعد عالمی ادارہ محنت ’آئی ایل او‘ اور مزدوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی مقامی تنظیموں کی طرف سے محنت کشوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے مطالبات میں تیزی آئی۔
پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور کی ضلعی انتظامیہ نے رواں ہفتے ایک رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ شہر کے مختلف رہائشی علاقوں میں ساڑھے سات ہزار سے زائد غیر قانونی فیکٹریاں قائم ہیں جہاں کوئی حادثہ بڑے نقصان کا سبب بن سکتا ہے۔
صوبائی انتظامیہ کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ان غیر قانونی فیکٹریوں کو اب صنعتی علاقوں میں منتقل کیا جائے گا۔
عدالت نے فیکٹری کے مالک دو بھائیوں ارشد بھائیلہ اور شاہد بھائیلہ کی ضمانت تو مسترد کر دی لیکن ان کے والد عبدالعزیز بھائیلہ کی ضمانت کی درخواست کو منظور کر لیا گیا۔
بعد ازاں ارشد اور شاہد کو پولیس نے گرفتار کر لیا۔
کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن میں گیارہ ستمبر کو گارمنٹس کی ایک فیکٹری میں ملک تاریخ کی بدترین آتشزدگی سے 250 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
پولیس نے ہفتہ کو عدالت میں عبوری چلان پیش کیا جس میں کہا گیا کہ آگ بھٹرکنے کے بعد مالکان اور جنرل مینجر کے کہنے پر فیکٹری کے دروازے بند کیے گئے۔
آتشزدگی کے بعد ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں بھی یہ ہی کہا گیا تھا کہ بڑی تعداد میں افراد کی ہلاکت کی وجہ فیکٹری کے دروازوں کی بندش تھی اور باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔
اس واقعہ سے چند گھنٹے قبل لاہور میں جوتوں کی ایک فیکٹری میں بھی آگ لگنے سے کم از کم 23 مزدور ہلاک ہو گئے تھے۔
فیکٹریوں میں آتشزدگی کے ان واقعات کے بعد عالمی ادارہ محنت ’آئی ایل او‘ اور مزدوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی مقامی تنظیموں کی طرف سے محنت کشوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے مطالبات میں تیزی آئی۔
پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور کی ضلعی انتظامیہ نے رواں ہفتے ایک رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ شہر کے مختلف رہائشی علاقوں میں ساڑھے سات ہزار سے زائد غیر قانونی فیکٹریاں قائم ہیں جہاں کوئی حادثہ بڑے نقصان کا سبب بن سکتا ہے۔
صوبائی انتظامیہ کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ان غیر قانونی فیکٹریوں کو اب صنعتی علاقوں میں منتقل کیا جائے گا۔