ایم اے جناح روڈ پر واقع کراچی میونسپل کارپوریشن کی بلڈنگ یا، عرف عام میں مشہور ’کے ایم سی بلڈنگ‘ کے سامنے سے گزریں تو یوں لگتا ہے گویا نئے روپ میں کراچی کا سنہرا ماضی تاریخ بن کر جھانک رہا ہے۔
ایک ماہر تعمیرات کی نظر سے دیکھیں تو عمارت اینگلو مغل طرز تعمیر کا شاہکار ہے۔ مگر زمانے کے بے رحم ہاتھوں اور’اپنوں‘ کی غفلتوں نے اسے اپنے مقام سے گرا دیا ہے۔ قومیں اپنے سنہرے ماضی کو اور آثار قدیمہ کو اپنا اثاثہ سمجھتی ہیں۔ لیکن، افسوسناک پہلو یہ ہے کہ کے ایم سی بلڈنگ کے ساتھ ایسا نہیں ہوا۔
تاریخی حوالوں میں لکھا ہے کہ عمارت کو ایڈن برگ کے جیمز ایس سی وائن نے انگریزی حروف تہجی ایچ کی شکل میں ڈیزائن کیا تھا۔ عمارت کی سطح زمین سے لمبائی سولہ عشاریہ دو فٹ بلند ہے، جبکہ برطانوی دور کے حکمراں ’کنگ جارج‘ کی سلور جوبلی کی یادگار کو ہمیشہ زندہ رکھنے کے لئے لئے عمارت کے چاروں رخوں پر گھڑیال نصب کئے گئے تھے، جو آج زمانے کی تیز رفتاری کا احساس ضرور دلاتے ہیں۔
ایک قدیم تاریخی حوالے میں لکھا ہے کہ ’کے ایم سی بلڈنگ کا سنگ بنیاد ابتدا میں لارڈ سینڈھرسٹ نے بندر روڈ پر ہی کسی اور جگہ 1895 میں رکھا تھا۔ لارڈ سینڈر ھرسٹ اس وقت بمبئی کے گورنر تھے۔فنڈز کی کمی کے باعث بلڈنگ کی تعمیر میں توقع سے زیادہ وقت لگا۔ تاہم، عمارت کی تعمیر آخر کار 31 دسمبر 1935 کو مکمل ہوئی۔
عمارت پر اس وقت بھی سترہ لاکھ پچھتر ہزار روپے لاگت آئی تھی۔ عمارت کے بیرونی حصے جودھ پور سے لائے گئے خصوصی پتھر سے بنے ہیں جبکہ اندرونی حصے مقامی پتھر سے ہی تعمیر کئے گئے تھے۔
آج یہ عمارت پاکستان کی نئی نسل کو 120 سالہ تاریخ کی ایک جھلک پیش کرتی نظر آتی ہے۔ جس سڑک پر یہ قائم ہے وہاں سے جانے کتنے اور کیسے کیسے عظیم رہنما اور حکمراں گزرے ہوں گے۔ اس عمارت نے اپنے سامنے سے گزرتی ٹرام بھی دیکھی ہوگی اور گھوڑا گاڑی سے جدید ترین سہولتوں سے آراستہ اور مہنگی ترین گاڑیاں کے سفر تک کی تمام اونچ نیچ دیکھی ہوگی، ہزارہا موسم اور انگنت لمحے بھی اس کی یادگار کا حصہ ہوں گے۔۔
کاش کہ عمارتیں بول سکتیں ۔۔کاش کہ ہم ان کی زبانی اپنی تاریخ، اپنا ماضی اور زمین کی تہوں میں چھپ جانے والے عظیم لوگوں کے بارے میں سن سکتے۔۔۔ کاش۔۔۔ اے کاش۔۔۔