کہتے ہیں کہ کراچی شہر کی دیواریں بھی بولتی ہیں۔ یقین نہ آئے تو ہمارے ساتھ چلئے اور خود اندازہ لگالیجئے کہ آج کی دیواروں کے صرف کان ہی نہیں ہوتے بلکہ یہ بولتی بھی ہیں۔ بالکل صاف اور واضح!! بسا اوقات تو یہ دیواریں وہ کچھ بول جاتی ہیں جو انسان بولتے ہوئے ہچکچاتے ہیں ۔
کسی کی ذات کی دھجیاں اڑانی ہوں یانظریاتی دشمنوں کو اخلاق سے عاری الفاظ بولنا ہوں، انسان خاموش ہوجاتے ہیں مگر دیواریں نہیں چوکتیں۔ ماضی پر نظر دوڑائیے اور ذہن پر زور ڈالئے تو آپ کو خود ہی یاد آجائے گا کہ کون کون سی دیواریں کب کب اور کس کس رہنما کے لئے کیا بول چکی ہیں۔
بھری بھری، مٹی چھوڑتی، چونے اور رنگ و نور سے خالی، خستہ حال دیواریں جانے کب سے اشتہارات، سیاسی اعلانات اور نعروں کے نشتر سہہ رہی ہیں، کوئی ان کی تاریخ بھی تو نہیں جانتا۔ معلوم نہیں کتنی تحریکیں ان دیواروں پر پروان چڑھیں، پھر انہی تحریکوں کی مخالفت میں شروع ہونے والی تحریکوں نے بھی انہی دیواروں کا سہارا لیا۔
اشتہاری مہموں کے علاوہ سیاسی جذبات اور احساسات کی ترجمان بھی یہی دیواریں بنتی ہیں، مذہب کی تبلیغ ہو یا فرقہ ورانہ ہم آہنگی کے سبق، نفرت و محبت کے ارشادات ہوں یا پبلک سروس میسیج سب دیواروں کے سہارے" زندہ "ہیں۔
حکیم کا مطب، ڈاکٹر کا کلینک، بیوٹی پارلر، حجامت کی دکانیں، اسپتال، کوچنگ سینٹرز، ایمبولینس سروس، مذہبی تقریبات، میلے، فیشن شوز، فلمیں، بوتیک ، پنکچر کی دکانیں، موٹر مکینک، منجن ، پاوڈر، کریم ، کپڑا لتا، دوپٹہ رنگوایئے ، پیکو کروایئے ، گوری ہوجایئے، کمپیوٹر ٹھیک کروائیں، اجتماعی قربانی میں حصہ لیں، کوڑا نہ پھینکیں، کچرا نہ ڈالیں، پیشاب نہ کریں، چلو چلو دبئی چلو، سیاسی جلسے جلوس میں چلو، درزی، مرضی، جادوٹونہ، عامل، سپلائی ، ملائی ۔۔۔۔کیا کچھ نہیں جو دیواروں کی زبانی ہم اور آپ تک نہ پہنچتا ہو۔
دیواریں مفت پبلی سٹی کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ اب اس جھنجٹ میں کون پڑے کہ دیواریں شہر کی خوب صورتی میں کیا کردار ادا کرتی ہیں اور کیا نہیں۔ دیکھئے ناں، یہی اشتہارات جو دیواروں پر لکھے اور لکھوائے جاتے ہیں وہ مرےسے مرے اگر اخبارات بھی دیئے جائیں تو کتنے مسائل درپیش ہوں گے۔ مثلاً بڑے اخبارات میں اپنی مرضی کی تاریخ پر اشتہار شائع کرانا کتنا مشکل، وقت طلب اور مہنگاہے ۔ وہاں لائنوں کے حساب سے پیسے دینے پڑتے ہیں، پھر ڈیزائننگ کرانے کے پیسے الگ، ایڈورٹائزنگ کمپنی کے جھمیلے الگ۔۔۔ اور یہاں ایک سستا سا پینٹرپکڑا اور کرادیں دیواریں کی دیواریں رنگین۔ لوگوں تک رسائی کا مسئلہ بھی نہیں، آتے جاتے لوگ خود ہی پڑھ لیں گے۔ ویسے بھی شہرکی ستر اسی فیصد 'جنتا' دن رات سڑکوں پر نکلی رہتی ہے ۔
دیواریں پڑھنے والوں کی تعداد بھی دن بہ دن بڑھ رہی ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسپتال ہویا مسجد،ڈاک خانہ ہو یا فیکٹری کارخانہ سب کی دیواریں آ پ کو رنگی ملیں گی۔۔۔ اور جو کوئی کونا کھدرا 'دیوار نگاروں' کی نگاہ سے بچ جاتا ہے تو وہاں تہہ در تہہ پوسٹر لگادیئے جاتے ہیں۔
جس تیزی سے دیواریں رنگی جاتی ہیں اس کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں کہ مستقبل قریب میں دیواروں کا مشاہدہ اور تجربہ شہر اور شہریوں کی نفسیات سمجھنے میں بھی مددگار ثابت ہو۔