کراچی میں تین روز تک جاری رہنے والا سالانہ لٹریچر فیسٹول اختتام پذیر ہوگیا ہے جس میں، منتظمین کے مطابق، ایک لاکھ سے زائد افراد شریک ہوئے۔
فیسٹول کی اختتامی تقریب اتوار کو کراچی کے ایک مقامی ہوٹل میں منعقد ہوئی۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے 'کراچی لٹریچر فیسٹول' کی شریک بانی اور 'آکسفورڈ یونیورسٹی پریس' کی سربراہ امینہ سید نے کہا کہ ادبی میلہ شہر کی سماجی منظر نامے میں ایک اہم روایت کا آغاز ثابت ہوا ہے جو گزشتہ چھ سال سے جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ کراچی ادبی میلہ کتابوں، مذاکروں، مباحثوں، آرٹ، موسیقی، رقص ، سننے، سمجھنے اور سوال پوچھنے کی روایت کے ذریعے شہر میں امن اور رواداری کو فروغ دینے کی ایک تحریک ہے جو کامیابی سے آگے بڑھ رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ادبی نشستوں اور کتابیں پڑھنے کے رجحان میں اضافے سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی معاشرے ترقی اور بالیدگی کی جانب گامزن ہے۔
امینہ سید نے کہا کہ ادبی میلوں کی اس روایت کے ذریعے پاکستان میں ادب کا احیا اور کتب بینی فروغ پارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کتب بینی کی اس روایت کو مزید جلا بخشنے کے لیے پاکستان میں لائبریریوں کا جال بچھانا ہوگا۔
میلے کی اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے معروف نقاد اور 'کراچی لٹریچر فیسٹول' کے شریک بانی ڈاکٹر آصف فرخی نے کہا کہ ادبی میلے کی اس روایت نے مصنفین اور ادیبوں کو معاشرے میں ان کا جائز مقام دلایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ شعر و ادب سے متعلق گفتگو کو سننے کے لیے ایک لاکھ سے زائد لوگوں کا ایک جگہ جمع ہونا یہ ثابت کرتا ہے کہ پاکستانی قوم خصوصا کراچی کے لوگوں کی اصل پہچان ادب اور کتاب ہے۔
اختتامی تقریب میں معروف براڈ کاسٹر ضیا محی الدین نے کلاسیکل اور جدید ادب سے اقتباسات پیش کرکے حاضرین سے ڈھیروں داد سمیٹی۔تقریب میں معروف رقاصہ نگہت چوہدری اور گلوکار علی سیٹھی نے بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔
تین روزہ لٹریچر فیسٹول کے دوران ادب اور فنونِ لطیفہ کے مختلف موضوعات پر 86 سیشن ہوئے جن میں دو سو سے زائد غیر ملکی اور مقامی مہمان شخصیات اور ادیب شریک ہوئے۔ لٹریچر فیسٹول کے تین روز کے دوران 30 سے زائد کتابوں کی رونمائی بھی ہوئی۔
میلے کے آخری دن اتوار کو بھی مختلف موضوعات پر 43 سیشن ہوئے جن میں ہزاروں شائقینِ ادب شریک ہوئے۔
معروف بھارتی مصنفہ اور سیاسی تجزیہ نگار نین تارا سہگل کی کتاب "دی پولیٹیکل امیجی نیشن' کی تقریبِ رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے مصنفہ نے ترقی پذیر ملکوں میں سیاست پر لکھنے والوں کی اہمیت پر گفتگو کی۔
انہوں نے زور دیا کہ ترقی پذیر ملکوں کے ادیبوں کو مغرب کی فکر چھوڑ کر صرف اپنے ملکوں کے قارئین کو پیشِ نظر رکھ کر لکھنا چاہیے۔
ادبی میلے کے تیسرے روز کا ایک اہم سیشن 'سندھ ساگر اور قیامِ پاکستان' کے عنوان سے ہوا جس میں معروف سندھی دانشور حمیدہ کھوڑو اور ماہرِ قانون اور سیاست دان اعتزاز احسن نے تحریکِ پاکستان میں سندھ اور سندھیوں کے کردار پر روشنی ڈالی۔
تیسرے روزکا ایک اور دلچسپ مذاکرہ پاکستان ٹیلی ویژن کے سنہری دور اور آج کے ٹی وی ڈرامےسے متعلق تھا جس میں معروف ڈرامہ نگار حسینہ معین، سمیرا افضل، امینہ شیخ، نیلوفر عباسی اور دیگر نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
مذاکرے سے خطاب کرتے ہوئے حسینہ معین کا کہنا تھا کہ پی ٹی وی کے عروج کے دور میں ڈراموں سے متعلق عملہ کمرشل سے زیادہ پروفیشنل ہوا کرتا تھا۔ اس کے برعکس، ان کے بقول، آج کے پروڈیوسر وں کو ریٹنگ کی فکر لاحق رہتی ہے۔
معروف ادیب اور سفرنامہ نگار مستنصر حسین تارڑ کے ساتھ نشست بھی اتوار کو ہونے والے سیشن میں شامل تھی جس میں ان کے نئے سفرنامے 'لاہور سے یارقند تک' پر گفتگو ہوئی۔
اتوار کو ادبی میلے کے دوران جس سیشن میں سب سے زیادہ رش رہا وہ معروف فن کارہ بشریٰ انصاری کے ساتھ نشست تھی جو ان کے بے ساختہ جملوں اور اپنے پروفیشنل کیریئر کے 'آف ایئر' قصوں کے باعث قہقہوں سے گونجتی رہی۔