فواد خان منگل کو معمول کے مطابق ڈیوٹی سے شمسی سوسائٹی ملیر میں واقع اپنے گھر پہنچے۔ والدہ سے ملنے کے بعد وہ بالائی منزل پر اپنے کمرے میں چلے گئے۔ لیکن کچھ دیر بعد فواد کی والدہ کو سعودی عرب میں مقیم ان کے ایک بیٹے کی کال آئی اور کہا کہ فواد نے اسے فون کرکے بتایا ہے کہ وہ اپنے گھر والوں کو قتل کرنے جا رہا ہے۔
فواد کی والدہ کے مطابق اس کال سے کچھ ہی دیر پہلے اوپر سے چند چیخوں کی آواز آئی تھی لیکن وہ یہ سسمجھی جیسے کسی بچے کو والدین کی جانب سے ڈانٹا جارہا ہے۔ لیکن اپنے دوسرے بیٹے کی کال کے بعد جب وہ اوپر گئیں تو دروازہ بند تھا۔ بڑی مشکل سے دروازہ کھولا تو فواد کی تینوں بیٹیاں اور بیوی خون میں لت پت پڑی تھیں۔
"میں نے وہ ایسا منظر دیکھا جو بیان نہیں کرسکتی، آخر اس کی وجہ کیا بنی مجھے کچھ معلوم نہیں۔" انہوں نے مزید بتایا کہ فواد تو اپنے بچوں پر جان دیا کرتا تھا، اس کی بیوی سے کبھی کوئی زیادہ جھگڑا نہیں ہوا اور آپس میں انتہائی محبت سے رہتے تھے۔
شور شرابے پر بعض محلے دار بھی وہاں پہنچے، فوری طور پر ایمبولینس طلب کی گئی۔ لیکن جب ریسکیو ٹیم اور پھر پولیس پہنچی تو ماں، بیٹیاں دم توڑ چکی تھیں جب کہ فواد انتہائی زخمی حالت میں فرش پر گرا ہو تھا۔
اسے فوری طور پر اسپتال پہنچایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے فوری طبی امداد کے بعد ملزم کی جان بچا لی۔ لیکن قوت گویائی متاثر ہونے کے باعث وہ کچھ بولنے کے قابل نہیں تھا۔
کسی حد تک حالت سنبھلنے کے بعد پولیس نے اس سے کچھ جاننے کی کوشش کی تو اس نے اپنے موبایئل فون پر ٹائپ شدہ پیغام میں اقرار کیا کہ اس نے بیٹیوں اور بیوی کو اپنے ہاتھ سے قتل کیا کیوں کہ اسے انویسٹر پریشان کررہے تھے اور اس سے کاروبار میں ڈوبی ہوئی رقم جلد واپس کرنے کا تقاضا کیا جارہا تھا۔
پولیس کی انوسٹی گیشن ٹیم نے وائس آف امریکہ کو مزید بتایا کہ ملزم نے اپنی دو سوتی ہوئی بیٹیوں کو سب سے پہلے بیڈ پر ہی تیز دھار آلے سے قتل کیا اور پھر اپنی تیسری بیٹی کو بھی مار ڈالا جو رو رہی تھی۔
شور کی آواز سُن کر بیوی واش روم سے باہر آئی تو اس نے بیوی کو بھی قتل کردیا۔ پولیس کے مطابق ملزم نے خاندان کو قتل کرنے کے بعد اپنے ایک انویسٹنمنٹ پارٹنر کو ویڈیو کال بھی کی اور بتایا کہ اس کی وجہ سے اس نے یہ انتہائی قدم اٹھایا ہے۔
فواد نے یہ سب کرنے کے بعد خود کشی کی بھی کوشش کی اور اسے انتہائی تشویش ناک حالت میں اسپتال پہنچایا گیا تھا۔ ڈاکٹرز کے مطابق معمولی فرق سے ملزم کی شہہ رگ محفوظ رہی۔ پولیس کے مطابق بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ملزم کاروباری نقصان کی وجہ سے بہت ذہنی دباؤ کا شکار تھا۔
پولیس تفتیش میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ملزم فواد نے سات انویسٹرز کے نام بتائے ہیں۔ ملزم نے انویسٹرز کے پیسے فوڈ انڈسٹری میں لگا رکھے تھے اور اس سے وہ ٹریڈنگ کررہا تھا۔
لیکن گزشتہ پانچ سے چھ ماہ سے فواد انہیں منافع نہیں دے پارہا تھا جب کہ انویسٹرز منافع اور اصل رقم کی واپسی کے لیے ملزم کے گھر کے چکر لگارہے تھے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ساتوں انویسٹرز کو شامل تفتیش کرکے ان کے فونز اور بینک اکاؤنٹس کی بھی چھان بین کی جائے گی۔
دوسری جانب چاروں لاشوں کا ابتدائی پوسٹ مارٹم مکمل ہونے کے بعد لاشیں ورثا کے حوالے کردی گئیں۔ پولیس کے مطابق میں لاشوں پر تشددکے نشانات موجودنہیں تھے۔ تاہم لاشوں کی ابھی کیمیکل ایگزامینیشن رپورٹس آنا باقی ہیں جس کے بعد حتمی رپورٹ جاری کی جائے گی۔
فواد خان کے قریبی دوست کامران سعید نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ فواد نے حال ہی میں کسان آئل اینڈ گھی کمپنی بطور سیلز مینیجر جوائن کی تھی اور اس سے پہلے بھی چند معروف فارما سیوٹیکل اور فوڈ کمپنیوں میں اعلیٰ عہدوں پر کام کیا تھا اور وہ بہت اچھا کماتا تھا۔ اس کے پاس بہترین گاڑیاں بھی موجود تھیں۔ اس کے ساتھ اس نے سائیڈ بزنس کے طور پر پراپرٹی اور فوڈ انڈسٹری میں بھاری سرمایہ کاری بھی کررکھی تھی۔
کامران کے مطابق وہ اپنی بچیوں سے بھی انتہائی محبت کرتا تھا۔ کچھ عرصے قبل ان کی چھوٹی بیٹی کے ناخن میں پس پڑ گئی تو وہ اسپیشلسٹ ڈاکٹر کی تلاش میں تھے۔
ایک ڈاکٹر سے ملاقات میں فواد نے کہا کہ اس سے بیٹی کا یہ زخم برداشت نہیں ہوتا، اس کو بہتر کرنے کے لیے جو ہوسکتا ہے وہ کریں۔ اس معاملے پر ان کی ڈاکٹر سے ایک بار تلخ کلامی بھی ہوئی تھی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں سے بے حد محبت کرتا تھا۔
بتایا جاتا ہے کہ فواد خان کی چھوٹی دو بیٹیاں اچھے اسکول میں پڑھتی تھیں جب کہ بڑی بیٹی انٹرمیڈیٹ کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اب چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے کوشش کررہی تھی۔
ان کے قریبی پڑوسی احمد علی نے بتایا کہ فواد خان انتہائی ملنسار، دوسروں کی مدد کرنے والا اور خوش گفتار آدمی تھا اور اس سے اس انتہائی اقدام کی کوئی توقع بھی نہیں کرسکتا تھا۔