یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کے خلاف کراچی میں 'تحفظ بیت المقدس مارچ' ہوا، جس میں مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہنماوں نے شرکت کی۔
امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے یروشلم کو اسرائیلی دارلحکومت تسلیم کئے جانے کے فیصلے پر احتجاج جاری ہے۔ دفاع پاکستان کونسل کے زیر اہتمام کراچی میں گلشن اقبال سے اسلامیہ کالج تک مارچ کیا گیا۔ مارچ میں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ شرکا نے فلسطینی عوام سے یکجہتی کے طور پر پاکستان اور فلسطین کے پرچم تھام رکھے تھے۔ شرکاء نے امریکی فیصلے کے خلاف نعرے بازی کی اور احتجاج ریکارڈ کرایا۔
مارچ کے اختتام پر، 'تحفظ بیت المقدس کانفرنس' کا انعقاد کیا گیا۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مرکزی رہنما 'جماعۃ الدعوہ'، حافظ عبد الرحمٰن مکی نے کہا کہ اس مسئلے کو بین الاقوامی مسئلے سے زیادہ اسلامی تناظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ''یہ قدم مسلمانوں کے خلاف سازش ہے''۔
دیگر مقررین کا بھی کہنا تھا کہ ''امریکا کے خلاف پوری دنیا سراپا احتجاج ہے۔ مسلمانوں کا قبلہ اول محفوظ نہ رہا، تو دنیا کے امن کی ضمانت دینا مشکل ہوجائے گا''۔
اُنھوں نے کہا کہ ''امریکی فیصلے سے نہ صرف خطہ مزید عدم استحکام کا شکار ہوگا، بلکہ دنیا بھر کا امن بھی خطرے میں پڑ گیا ہے''۔
مارچ اور کانفرنس میں ملی مسلم لیگ، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام، جمعیت علمائے پاکستان اور دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں نے شرکت کی۔
دوسری جانب، 'مجلس وحدت المسلمین' نے بھی 'امریکہ مردہ باد ریلی' نکالی، جو نمائش چورنگی سے شروع ہو کر مولوی تمیز الدین روڈ پر، امریکی قونصلیٹ کے قریب اختتام پزیر ہوئی۔ 'ایم ڈبلیو ایم' کے رہنما، مولانا مختار امامی کا کہنا ہے کہ پر امن ریلی کا مقصد اپنا احتجاج ریکارڈ کرانا ہے۔ بقول اُن کے ''امریکی صدر کے اعلان سے امریکہ کی غیر منصفانہ, جانبدارانہ اور اسرائیل نواز پالیسی عیاں ہوچکی ہے۔''
پولیس کی جانب سے ریلی کو 'امریکی قونصل خانے' جانے کی اجازت نہیں ملی؛ جس کے بعد، ریلی کو قونصلیٹ سے دور ہی اختتام پزیر کیا گیا۔ قونصلیٹ جانے اور آنے والے تمام راستوں کو رکاوٹیں کھڑی کرکے بند کردیا گیا تھا۔ مظاہرین نے اس موقع پر امریکی اور اسرائیلی پرچم نذر آتش کئے۔
مظاہرین نے حکومت پاکستان اور دیگر مسلم ممالک سے مطالبہ کیا کہ امریکہ اور اسرائیل سے سفارتی تعلقات ختم اور ان ممالک کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے، تاکہ امریکہ کو اپنا فیصلہ واپس لینے پر مجبور کیا جا سکے۔