کراچی میں گزشتہ چند روز کے دوران موسلادھار بارشوں سے نظامِ زندگی درہم برہم ہو کر رہ گیا ہے۔ ان بارشوں نے اگست کے مہینے میں مینہ کا 36 سال پرانا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔
اگرچہ محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ سندھ میں بارشیں برسانے والا موجودہ سسٹم کمزور پڑ چکا ہے۔ لیکن اتوار، پیر اور منگل کی موسلادھار بارش کے باعث شہر کے بڑے حصے میں نظامِ زندگی معطل ہو کر رہ گیا ہے۔
کئی گھروں میں بارش کا پانی داخل ہونے سے شہریوں کو مالی نقصانات کا بھی سامنا ہے اور بدھ کی شام تک کئی علاقوں سے پانی کی نکاسی کا عمل مکمل نہیں ہو سکا ہے۔
محکمۂ موسمیات کے مطابق رواں ماہ اب تک کراچی کے شاہ فیصل ایئر بیس پر 345 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی جا چکی ہے، جو اس سے قبل 1984 میں 298 ملی میٹر ریکارڈ کی گئی تھی۔
بدھ کو بھی شہر کے مختلف علاقوں میں وقفے وقفے سے تیز اور ہلکی بارش کا سلسلہ جاری رہا۔ تیز بارشوں کے باعث نشیبی علاقوں میں کئی کئی فٹ پانی کھڑا ہو گیا۔ سب سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں میں ملیر ندی کے اطراف میں قائم بستیاں شامل ہیں۔
تھڈو ڈیم کے اوور فلو ہونے اور کئی مقامات پر بند میں شگاف پڑنے سے پانی کا ایک بڑا ریلا، گھروں میں داخل ہو گیا جس کی وجہ سے ہر طرف پانی ہی پانی پھیلا ہوا ہے۔
ان علاقوں میں یار محمد گوٹھ، ثمر گارڈن، جمعہ گوٹھ، عباس ٹاون، مدینہ ٹاؤن، سموں گوٹھ، کوہی گوٹھ اور ملحقہ علاقے شامل ہیں۔
لوگوں کا کہنا ہے کہ شدید سیلابی ریلا ان کے گھر بار، گاڑیاں اور دیگر سامان بہا کر لے گیا۔ منگل کے روز سے متعدد خاندان کئی کئی فٹ پانی میں گھرے ہوئے اپنے گھروں کی چھتوں پر محصور ہو کر رہ گئے ہیں جب کہ بعض اپنے بچے کھچے سامان کے ساتھ محفوظ مقامات پر منتقل ہو رہے ہیں۔
زیادہ تر تباہی ان علاقوں میں آئی ہے جو ملیر ندی کے اندر غیر قانونی طور پر آباد کیے گئے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ متاثرہ علاقوں سے 50 سے زائد افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا ہے۔
شدید بارش کی وجہ سے صوبائی دارالحکومت کی اہم سڑکیں توڑ پھوڑ کا شکار ہیں۔ کورنگی کاز وے بند کے ٹوٹنے اور پانی کا بڑا ریلا گزرنے کے باعث اسے ٹریفک کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔
شیر شاہ روڈ، ہاکس بے روڈ، کورنگی روڈ، شارع پاکستان اور دیگر اہم سڑکوں پر پانی کی نکاسی کا کام مکمل نہیں کیا جا سکا جب کہ ریل اور پروازوں کی آمد و رفت کا نظام بھی بری طرح متاثر ہوا ہے۔
شارع فیصل کے قریب نرسری فرنیچر مارکیٹ دوسرے روز بھی پانی اور کیچڑ سے اٹی رہی جس پر وہاں کے دکان داروں نے شارع فیصل پر احتجاجی مظاہرہ کیا اور دھرنا دیا۔
مظاہرین نے حکومت سے اپنے نقصانات کا ازالہ کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا اس علاقے میں صفائی کا کام ترجیحی بنیادوں پر کرایا جائے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ادھر کراچی میں بارشوں کے بعد پیدا شدہ صورتِ حال سے نمٹنے اور لوگوں کو محفوظ مقامات پر پہنچانے کے لیے فوج بھی امدادی سرگرمیوں میں حصہ لے رہی ہے۔ جس کے لیے کشتیوں کا استعمال بھی کیا جا رہا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ ملیر کے علاوہ سرجانی ٹاون، محمود آباد، بلوچ کالونی، اورنگی ٹاون، کورنگی اور لانڈھی کے علاقے بارشوں سے شدید متاثر ہوئے ہیں جہاں امدادی سرگرمیاں تیزی سے جاری ہیں جب کہ متاثرین کو کھانا بھی فراہم کیا جا رہا ہے۔
کراچی کے علاوہ سندھ کے دیگر اضلاع حیدرآباد، ٹھٹھہ، بدین، سجاول، تھرپارکر، عمر کوٹ، دادو، جامشورو، مٹیاری، میرپور خاص، ٹنڈو الہ یار اور ٹنڈو محمد خان بھی بارشواں سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔
محکمۂ موسمیات کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران پڈعیدن میں 110، ٹھٹھہ میں 89، موئن جو دڑو میں 82، لاڑکانہ میں 66، میرپور خاص 54، بے نظیر آباد میں 49 جب کہ جیکب آباد میں بھی 23 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔
'قدرتی آفت کو روک نہیں سکتے'
وزیرِ اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے تسلیم کیا ہے کہ کئی علاقوں میں صورتِ حال بے حد خراب ہے تاہم انہوں نے دعویٰ کیا کہ کراچی میں 2007 کی بارشوں کے مقابلے میں کم نقصان ہوا ہے اور حکومت کی کارکردگی بھی بہتر رہی۔
انہوں نے کہا کہ مون سون کی بارشوں سے پورا صوبہ متاثر ہوا ہے اور کئی علاقوں میں 100 سال میں بھی اتنی زیادہ بارش نہیں ہوئی۔
وزیرِ اعلیٰ کا کہنا تھا کہ قدرتی آفات کو روکا نہیں جا سکتا لیکن اس صورتِ حال میں سندھ حکومت کو عوام کی مشکلات کا احساس ہے اور وہ اُن کے ساتھ ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
وزیرِ اعلیٰ سندھ نے انتظامیہ کو ہدایت کی ہے کہ متاثرہ لوگوں کو کھانا اور پینے کا صاف پانی فراہم کیا جائے اور انہیں تنہا نہ چھوڑا جائے۔
واضح رہے کہ صوبے بھر میں منگل کو رین ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کیا گیا تھا جس کے بعد تمام سرکاری محکموں میں ملازمین کی چھٹیاں منسوخ کی جا چکی ہیں۔
ادھر کراچی کو پانی فراہم کرنے والے ایک اہم ذریعے اور بلوچستان میں واقع حب ڈیم کی سطح حالیہ بارشوں کے باعث مزید چار فٹ بلند ہو گئی ہےجس سے یہاں پانی کا لیول 334 فٹ تک جا پہنچا ہے۔
ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش 339 فٹ ہے۔ واپڈا حکام کا کہنا ہے کہ سندھ اور بلوچستان کے پہاڑی سلسلے میں حالیہ شدید بارشوں سے حب ڈیم میں پانی کی آمد کا سلسلہ جاری ہے اور کیچمنٹ ایریاز سے پانی کے غیر معمولی ریلے حب ڈیم پہنچ رہے ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ اگر بارشوں کا موجودہ سلسلہ برقرار رہا تو ڈیم اپنی محفوظ سطح تک بھر جائے گا جس کے بعد اضافی پانی خارج کرنے کے لیے اس کے اسپل ویز کھولنے پڑیں گے۔