قومی اسمبلی نے ایک متفقہ قرارداد میں صوبائی حکومتوں سے آتشزدگی کے ان واقعات کی جوڈیشل کمیشن کے ذریعے تحقیقات کرانے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
اسلام آباد —
قومی اسمبلی کے جمعرات کو ہونے والے اجلاس میں کراچی اور لاہور میں ایک ہی دن میں دو فیکٹریوں میں آتشزدگی واقعات کے خلاف ایک متفقہ قرارداد کی منظور کی گئی جس میں ذمہ داران کا تعین کرکے انھیں انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا گیا۔
قرارداد میں صوبائی حکومتوں سے واقعات کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بنانے کے علاوہ، فیکٹری مالکان اور متعلقہ سرکاری عہدیداروں کی ذمہ داری کا تعین کرنے کا کہا گیا ہے۔
مزید برآں مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے ضروری قانون سازی کرنے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔
اُدھر وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے بتایا ہے کہ کراچی میں آتشزدگی کے واقعے کی مختلف پہلوؤں سے تحقیقات کی جا رہی ہے تاکہ اصل ذمہ داران کا تعین کرکے ان کے خلاف کارروائی کی جا سکے۔
اسلام آباد میں جمعرات کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ سرکاری طور پر 264 افراد اس واقعے میں ہلاک ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت کو جدید سائنسی بنیادوں پر تحقیقات کے لیے معاونت بھی فراہم کی جارہی ہے۔
’’آخر یہ آگ کس طرح لگی، اتنی جلدی کیسے پھیلی، کیا وہاں کوئی کیمیکل تھا، کیا وہاں کپڑے پڑے ہوئے تھے۔ ایک تہہ خانے سے آگ کا اوپر جانا یہ تھوڑا ہمارے لیے پریشانی کا باعث ہے۔ بہرحال ایک ٹیم فرانزک کا تجزیہ کا کررہی ہے، فائر کے ایکسپرٹ بھی اس میں ہیں، ایف آئی اے بھی اس میں ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ آج شام یا کل تک ہمیں اس کی وضاحت مل جائے گی۔‘‘
منگل کی شام کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن میں کپڑوں کی فیکٹری میں بھڑکنے والی آگ نے دیکھتے ہی دیکھتے پوری عمارت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا اور خارجی راستے بند ہونے کی وجہ سے یہاں کام کرنے والے سینکڑوں مرد و خواتین مزدور اندر ہی پھنس گئے تھے۔ فائر بریگیڈ اور دیگر امدادی تنظیموں کے کارکنوں نے تقریباً 30 گھنٹوں کی جدوجہد کے بعد آگ پر قابو پاکر سوختہ عمارت سے لاشوں کو نکالا تھا۔
کراچی پولیس نے فیکٹری کے مالکان کے خلاف قتل مقدمہ درج کرلیا ہے لیکن یہ لوگ تاحال روپوش ہیں۔ حکومت نے پہلے ہی ان مالکان کے نام ان لوگوں کی فہرست میں شامل کردیے ہیں جنہیں ملک چھوڑ کر جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔
منگل کو ہی پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں جوتوں کے ایک کارخانے میں آگ بھڑک اٹھنے سے وہاں کام کرنے والے 25 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
قرارداد میں صوبائی حکومتوں سے واقعات کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بنانے کے علاوہ، فیکٹری مالکان اور متعلقہ سرکاری عہدیداروں کی ذمہ داری کا تعین کرنے کا کہا گیا ہے۔
مزید برآں مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے ضروری قانون سازی کرنے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔
اُدھر وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے بتایا ہے کہ کراچی میں آتشزدگی کے واقعے کی مختلف پہلوؤں سے تحقیقات کی جا رہی ہے تاکہ اصل ذمہ داران کا تعین کرکے ان کے خلاف کارروائی کی جا سکے۔
اسلام آباد میں جمعرات کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ سرکاری طور پر 264 افراد اس واقعے میں ہلاک ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت کو جدید سائنسی بنیادوں پر تحقیقات کے لیے معاونت بھی فراہم کی جارہی ہے۔
’’آخر یہ آگ کس طرح لگی، اتنی جلدی کیسے پھیلی، کیا وہاں کوئی کیمیکل تھا، کیا وہاں کپڑے پڑے ہوئے تھے۔ ایک تہہ خانے سے آگ کا اوپر جانا یہ تھوڑا ہمارے لیے پریشانی کا باعث ہے۔ بہرحال ایک ٹیم فرانزک کا تجزیہ کا کررہی ہے، فائر کے ایکسپرٹ بھی اس میں ہیں، ایف آئی اے بھی اس میں ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ آج شام یا کل تک ہمیں اس کی وضاحت مل جائے گی۔‘‘
منگل کی شام کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن میں کپڑوں کی فیکٹری میں بھڑکنے والی آگ نے دیکھتے ہی دیکھتے پوری عمارت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا اور خارجی راستے بند ہونے کی وجہ سے یہاں کام کرنے والے سینکڑوں مرد و خواتین مزدور اندر ہی پھنس گئے تھے۔ فائر بریگیڈ اور دیگر امدادی تنظیموں کے کارکنوں نے تقریباً 30 گھنٹوں کی جدوجہد کے بعد آگ پر قابو پاکر سوختہ عمارت سے لاشوں کو نکالا تھا۔
کراچی پولیس نے فیکٹری کے مالکان کے خلاف قتل مقدمہ درج کرلیا ہے لیکن یہ لوگ تاحال روپوش ہیں۔ حکومت نے پہلے ہی ان مالکان کے نام ان لوگوں کی فہرست میں شامل کردیے ہیں جنہیں ملک چھوڑ کر جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔
منگل کو ہی پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں جوتوں کے ایک کارخانے میں آگ بھڑک اٹھنے سے وہاں کام کرنے والے 25 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔