بھارت کے قومی تحقیقاتی ادارے نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) نے سرکردہ کشمیری انسانی حقوق کے کارکن خُرم پرویز کو مبینہ طور پر دہشت گردوں کی مالی امداد کے الزام میں گرفتار کر لیا ہے۔
این آئی اے نے مقامی پولیس اور وفاقی پولیس فورس (سی آر پی ایف) کے ساتھ مل کر پیر کی شب سرینگر میں خرم پرویز کی رہائش گاہ اور ان کے دفتر پر چھاپے مارے۔ بعدازاں ایجنسی کے ترجمان نے ان کی گرفتاری کا اعلان کیا۔
خرم پرویز کے اہلِ خانہ کے مطابق این آئی اے کے اہلکار خرم کا لیپ ٹاپ، موبائل فون اور چند کتابیں اپنے ہمراہ لے گئے ہیں۔
این آئی اے ذرائع نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ خرم پرویز سے سرینگر کی چرچ لین میں واقع این آئی اے کے دفتر پر پوچھ گچھ کے بعد انہیں باضابطہ طور پر حراست میں لیا اور یہ اطلاع ان کی اہلیہ کو دی گئی تھی۔
ذرائع نے بتایا کہ خرم پرویز کو تفتیش کے سلسلے میں حیدر آباد (دکن) لے جایا جا رہا ہے۔
این آئی اے کے عہدیداروں نے بتایا ہے کہ خرم پرویز کی گرفتاری کا تعلق دہشت گرد تنظیموں اور سرگرمیوں کو پروان چڑھانے والوں کی مالی اعانت سے ہے۔
SEE ALSO: بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کے وہ فیصلے جو تنازعات کا باعث بنےاین آئی اے کے ایک ترجمان نے دعویٰ کیا ہے کہ خرم پرویز کو غیر قانونی سرگرمی میں ملوث ہونے کے واضح ثبوت ملنے کے بعد حراست میں لیا ہے جب کہ چھاپہ مار کارروائی کے دوران ان کے بقول بعض اہم مجرمانہ دستاویزات بھی تحویل میں لی ہیں۔
این آئی اے کا دعویٰ ہے کہ بعض غیر سرکاری تنظیمیں اور ٹرسٹ بھارت میں مقامی طور پر اور بیرونی ممالک سے عطیات اور تجارتی شراکت کے نام پر بھاری تعداد میں رقوم جمع کر رہی ہیں اور پھر یہ پیسہ جموں و کشمیر میں دہشت گردی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
واضح رہے کہ این آئی اے بھارت کی سب سے بڑی انسدادِ دہشت گردی ٹاسک فورس ہے جسے یہ اختیار حاصل ہے کہ یہ ملک کی کسی بھی ریاست یا علاقے میں مقامی انتظامیہ کی اجازت حاصل کیے بغیر از خود دہشت گردی سے متعلق جرائم سے نمٹنے کے لیے اقدامات اٹھاسکتی ہے۔
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں حالیہ برسوں کے دوران اس ایجنسی کو مبینہ دہشت گردی کے کئی معاملات میں تحقیقات کا کام سونپا گیا ہے جن میں فروری 2019 میں ضلع پُلوامہ میں ہونے والا خودکش حملہ اور رواں برس جموں میں بھارتی فضائیہ کے حساس ترین اڈے پر ڈرونز کے ذریعے کی گئی بمباری کا واقعہ بھی شامل ہے۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ نے بھی خرم پرویز کی گرفتاری پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔
سوشل میڈیا پوسٹ میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا کہ بھارت میں انسدادِ دہشت گردی قوانین کا انسانی حقوق پر کیے جانے والے کام کو مجرمانہ بنانے اور اختلاف کو دبانے کے لیے کیسے غلط استعمال کیا جاتا ہے اس کی ایک اور مثال کشمیری فعالیت پسند خّرم پرویز کی گرفتاری ہے۔
جموں و کشمیر ہائی کورٹ بار کونسل ایسو سی ایشن نے بھی خرم پرویز کی گرفتاری کی مذمت کی ہے۔
دوسری جانب پاکستان نے بھی خرم پرویز کی گرفتاری کی مذمت کی کرتے ہوئے منگل کو اسلام آباد میں دفترِ خارجہ سے جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان کشمیر میں انسانی حقوق کے کارکن خرم پرویز کی گرفتاری کی مذمت کرتا ہے۔
بیان کے مطابق بھارتی فورسز کی طرف سے انسانی حقوق کے کارکنوں کی گرفتاریاں نئی دہلی کے ریاستی دہشت گردی اور بنیادی حقوق کو روندنے کے ثبوت ہیں۔
خرم پرویز کون ہیں؟
خرم پرویز دس ایشیائی ممالک میں لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے سرگرم تیرہ تنظیموں کے اتحاد ایشین فیڈریشن اگینسٹ انویلینٹری ڈس اپیئرنسز (ای ایف اے ڈی) کے چیئر پرسن اور جموں کشمیر کولیشن آف سِول سوسائٹی (جے کے سی سی ایس) کے پروگرام کوآرڈینیٹر ہیں۔
خرم دو دہائیوں سے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں پائی جانے والی انسانی حقوق کی صورتِ حال کو اجاگر کرنے میں خاصے سرگرم رہے ہیں۔
انہیں 2006 میں 'ریبوک ہیومن رائٹس ایوارڈ' سے نوازا گیا تھا۔ اس کے علاوہ وہ 2016 میں ایشیا ڈیموکریسی اور ہیومن رائٹس ایوارڈ حاصل کر چکے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
انسانی حقو ق کے محاذ پر سرگرم کشمیری وکلاء کی تنظیم لیگل فورم فار کشمیر نے خّرم پرویز کی گرفتاری پر ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا ہے کہ "این آئی اے کی نو آبادیاتی پولیسنگ اور فوجی جنگ آوری کا مقصد انسانی حقوق کا دفاع کرنے والوں اور صحافیوں کو دہشت زدہ کرنا ہے۔"
فورم نے بھارتی حکومت پر اس کے زیرِ انتظام کشمیر میں قومی سلامتی کے نام پر انسانی حقوق کے کارکنوں اور اختلافِ رائے کو دبانے کے لیے 'یو اے پی اے' جیسے قوانین کا بے دریغ استعمال کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
بیان میں مزید کہا ہے کہ پانچ اگست 2019 کو نئی دہلی کی طرف سے ریاست کی آئینی نیم خود مختاری کو ختم کرنے اور اسے دو حصوں میں تقسیم کر کے کشمیر کو براہِ راست وفاق کے کنٹرول والے علاقے بنانے کے بعد سے لگ بھگ 2300 افراد کو ان قوانین کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ این آئی اے نے گزشتہ برس 28 اکتوبر کو بھی سرینگر میں خّرم پرویز کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا تھا۔
ماضی میں خرم پرویز کی گرفتاریاں
بھارتی حکام نے خرم پرویز کو 14 ستمبر 2016 کو اس وقت حراست میں لیا تھا جب وہ اقوامِ متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل کے 33ویں اجلاس میں شرکت کے لیے جنیوا جا رہے تھے۔
حکام نے انہیں نئی دہلی کے اندرا گاندھی انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر عارضی طور پر حراست میں لیا اور اگلے دن سرینگر لوٹنے پر انہیں پولیس نے گھر سے باضابطہ طور پر گرفتار کر لیا تھا۔
ایک ہفتے بعد 21 ستمبر کو ایک مقامی عدالت نے انہیں رہا کرنے کے احکامات جاری کیے لیکن پولیس نے انہیں دوبارہ حراست میں لیا اور پھر انہیں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں 1978 سے نافذ سخت گیر قانون 'پبلک سیفٹی ایکٹ' کے تحت 76 روز تک نطر بند رکھنے کے بعد 30 نومبر 2016 کو رہا کیا۔