مشرقی افریقہ کےبعض علاقے ان دنوں طویل خشک سالی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی شدید غذائی قلت کے شکار ہیں۔۔ قرن افریقہ کہلانے والے اس علاقے میں اقوام متحدہ نے صومالیہ سمیت کئی علاقوں کو قحط زدہ قرار دے کروہاں امدادی کارروائیوں کا آغاز کردیا ہے۔ قحط اور سیاسی عدم استحکام کے باعث ہزاروں صومالی اپنا گھر بار چھوڑ کر کینیا میں قائم پناہ گزین کیمپوں کا رخ کر رہےہیں ۔لیکن وہاں بھی انہیں کئی مشکلات کا سامنا ہے۔
ان میں سے بہت سے لوگ کئی دنوں تک مسلسل پیدل چل کر ، بھوکے یہاں پہنچے ہیں۔ نئے آنے والے پناہ گزینوں میں 22 سالہ ظابو صلات بھی شامل ہیں جن کے ساتھ ان کے دو بچے بھی ہیں۔ انھوں نےصومالیہ سے یہاں آنے کا فیصلہ اس وقت کیا جب ان کے تمام مویشی بھی بھوک سے مر گئے۔
صلات کی طرح کیمپوں اکثرخاندان خالی ہاتھ آئے ہیں۔ بین الاقوامی اور مقامی تنظیمیں ان پناہ گزینوں کو خوراک فراہم کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہیں۔ لیکن پناہ گزینوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس سے مشکلات بڑھ رہی ہیں۔
اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے کے ایک عہدے دار راجر نیلر کہتے ہیں کہ یہاں کےتین کیمپوں میں کئی ہفتوں سے ہر روز تقریباً 12 سو نئے پناہ گزین آ رہے ہیں۔ ان کیمپوں میں سے ہر ایک میں 30 ہزار افراد کی گنجائش ہےلیکن ہر کیمپ میں اس وقت چار گنا زیادہ افراد موجود ہیں ۔
کچھ پناہ گزین تو ان کیمپوں میں گزشتہ 20 برس سے مقیم ہیں۔اور وہ نئے آنے والوں کی مدد کرنے کی کوشش کر بھی کر رہے ہیں۔ شمس الدین 1992 میں صومالیہ میں ہونے والی خانہ جنگی سے بچنے کے لیے یہاں آئے تھے۔ان کا کہنا ہے کہ حالات اب پہلے سے زیادہ خراب ہیں۔
یہاں کے بڑے کیمپوں میں اب پناہ گزینوں کے لیے جگہ کم ہو تی جارہی ہے۔ ان کیمپوں کے ارد گرد تقریبا 70 ہزار لوگ رہ رہے ہیں جن تک پہنچنا امدادی اداروں کے لیےآسان نہیں ۔
ان میں نئے آنے والے سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا کرتے نظر آ رہے ہیں۔۔جن میں سے ایک ابوخیر مختار ہیں جو جون کے مہینے میں یہاں پہنچے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے لوگوں سے بھیک مانگ کر گزارہ کیا اور اس طرح سفر کرکے یہاں تک پہنچے۔
یہاں کیمپوں سے باہر رہنے والے لوگوں کا نام رجسٹر نہیں کیا جاتا ۔ اس لیے انہیں امدادی خوراک اور سامان بھی نہیں ملتا۔
صومالیہ میں جاری قحط اور سیاسی عدم استحکام کے باعث حالات جلد بہتر ہوتے نظر نہیں آ رہے۔جس کا مطلب ہے کہ آنے والے دنوں میں پناہ کے لیے ان کیمپوں کا رخ کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہے گا۔