رسائی کے لنکس

صومالیہ: کیا قحط کی صورتِ حال کے باعث الشباب اپنا رویہ بدلے گی


صومالیہ: کیا قحط کی صورتِ حال کے باعث الشباب اپنا رویہ بدلے گی
صومالیہ: کیا قحط کی صورتِ حال کے باعث الشباب اپنا رویہ بدلے گی

نیروبی میں کام کرنے والے صومالیہ کے ایک مبصر عبدی صمد کا کہنا ہے کہ الشباب کی طرف سے مختلف طرح کے پیغامات کا سامنے آنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ تنظیم کے دو اہم دھڑوں میں اختلافات پائے جاتے ہیں

چھ جولائی کو الشباب کے ترجمان شیخ علی محمود راگے نے اعلان کیا تھا کہ عسکری گروپ صومالیہ میں آنے والے بدترین قحط کے شکار لوگوں کو امداد پہنچانے والی غیر ملکی تنظیموں پر لگائی جانے والی پابندی اُٹھالے گا۔

دوہفتے بعد یہ فیصلہ واپس لے لیا گیا۔ اِس دفعہ راگے نے کہا کہ پابندی برقرار رہے گی، لیکن صرف اُن تنظیموں کو کام کرنے کی اجازت دی جائے گی جنھوں نے صومالیہ میں پہلے کام کیا ہے۔

نیروبی میں کام کرنے والے صومالیہ کے ایک مبصر عبدی صمد کا کہنا ہے کہ الشباب کی طرف سے مختلف طرح کے پیغامات کا سامنے آنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ تنظیم کے دو اہم دھڑوں میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔

صمد کے الفاظ میں، ’اِس میں دو دھڑے ہیں۔ گوکہ یہ تقسیم پہلے سے موجود تھی۔ پر اِس کے بارے میں کسی کو معلوم نہیں تھا۔

ایک وہ ہے جو القاعدہ کے فلسفے کے تحت عالمی جہاد پر یقین رکھتا ہے اور دوسرا وہ دھڑا ہے جو زیادہ تر مقامی لوگوں پر مشتمل ہے اور عوام کے زیادہ قریب ہے۔‘

الشباب کے اہم راہنما شمالی علاقے صومالی لینڈ سے تعلق رکھتے ہیں اور اُنھوں نے القاعدہ کے ساتھ افغانستان میں تربیت حاصل کی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو امدادی اداروں کو باہر رکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن، ایک اور دھڑا ہے جس کے راہنماٴوں کا تعلق بے اور بکول علاقوں سے ہے جو قحط سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں اور یہ غیر ملکی امداد اُن علاقوں تک پہنچانے کے حق میں ہیں۔

صمد کا کہنا ہے کہ جب سے صومالیہ میں خوراک کا بحران شروع ہوا ہے اِن دونوں دھڑوں میں اختلافات شدت اختیار کرگئے ہیں۔

الشباب نے غیر ملکی امدادی ایجنسیوں کے خلاف کافی حملے کیے ہیں اور کئی کارکنوں کو اغوا اور ہلاک بھی کیا ہے۔ اِس کے علاوہ کئی دفعہ امدادی سامان بھی اپنے قبضے میں کر لیا گیا۔

اِس کی وجہ سے غیر ملکی امدادی ادارے صومالیہ میں کام کرنے سے گھبراتے ہیں۔

’انٹرنیشنل کرائسس گروپ‘ کے راشد عابدی کا کہنا ہے کہ قبائلی راہنماؤں اور مقامی لوگوں میں الشباب کی حمایت میں کمی ہے اور وہ اِس گروپ کو بحران کا ذمے دار ٹھہراتے ہیں۔

اُن کا کہنا ہے کہ شاید اِس لیے اب یہ گروپ امدادی ایجنسیوں کے اوپر حملے بند کردے۔

راشد عابدی کے بقول، میرے خیال میں صورتِ حال اتنی سنگین ہوگئی ہے کہ میرا نہیں خیال کہ الشباب اب حملے کرے، کیونکہ وہ اپنے آپ کو ایک ذمہ دار تنظیم کے طور پر دکھانا چاہتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

XS
SM
MD
LG