ارشد شریف کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت غیر قانونی تھی: کینیا کی عدالت کا فیصلہ

  • کینین ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں ارشد شریف پر فائرنگ کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
  • واقعے میں ملوث پولیس اہلکاروں کے خلاف مناسب کارروائی عمل میں لائی جائے: عدالتی فیصلہ
  • ارشد شریف کی اہلیہ جویریہ صدیق نے کینین عدالت سے رُجوع کیا تھا۔
  • کینین عدالت کے فیصلے کے بعد انصاف کی اُمید پیدا ہوئی ہے: جویریہ صدیق
  • ارشد شریف 23 اکتوبر 2022 کو نیروبی کے قریب مگاڈی کے علاقے میں پولیس کی فائرنگ سے ہلاک ہو گئے تھے۔
  • کینیا کی پولیس نے واقعے کو شناخت میں غلطی کا معاملہ قرار دیا تھا۔

اسلام آباد -- کینیا کے شہر کجیاڈو کی ہائی کورٹ نے پاکستانی صحافی ارشد شریف کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دیتے ہوئے واقعے میں ملوث پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا ہے۔

کینین ہائی کورٹ کی جج جسٹس سٹیلا موٹوکو نے ارشد شریف کی اہلیہ جویریہ صدیق کی درخواست پر پیر کو فیصلہ سناتے ہوئے کینین پولیس کی فائرنگ کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔

صحافی ارشد شریف کو 23 اکتوبر 2022 میں کینیا کے شہر نیروبی کے قریب مگاڈی کے علاقے میں پراسرار طور پر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ ابتدا میں کینین پولیس نے اسے غلط شناخت کا معاملہ بتایا تھا تاہم بعد کی تحقیقات میں یہ دعویٰ غلط ثابت ہوا تھا۔

ارشد شریف کی والدہ اور اہل خانہ نے پاکستانی فوج کے بعض افسران سمیت کچھ اعلیٰ حکام پر اس قتل میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کیے تھے۔ تاہم پاکستان کی فوج نے تمام الزامات کی تردید کی تھی۔

کینین ہائی کورٹ کی جج جسٹس سٹیلا موٹوکو نے ارشد شریف کے اہلِ خانہ کو دو کروڑ 17 لاکھ روپے زرتلافی ادا کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔ تاہم حکومت فیصلے کے خلاف 30 روز کے اندر اپیل بھی دائر کر سکے گی جس دوران معاوضے کا فیصلہ بھی معطل رہے گا۔

Your browser doesn’t support HTML5

ارشد شریف قتل کیس: کورٹ، کمیشن نے اب تک کیا کیا؟

عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ واقعے کے تجزیے سے یہ سامنے آیا ہے کہ کینین حکام نے اپنے اقدامات کے ذریعے پٹیشنر کے حقوق کی خلاف ورزی کی۔

جج کا اپنے فیصلے میں مزید کہنا تھا کہ اہلِ خانہ کو کیس کی تحقیقات سے آگاہ رکھنا چاہیے اور قصوروار پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی بھی ہونی چاہیے۔

ارشد شریف کی بیوہ اہلیہ جویریہ صدیق نے اپنی درخواست میں کینین اٹارنی جنرل، انسپکٹر جنرل آف پولیس، ڈائریکٹر آف پبلک پراسیکیوشن، انڈپینڈنٹ پولیسنگ اور سائٹ اتھارٹی سمیت دیگر حکام پر واقعے کی تحقیقات میں تاخیر کا الزام لگایا تھا۔

درخواست گزار نے مذکورہ اتھارٹیز کیس کی پیش رفت سے متعلق آگاہ نہ کرنے کا بھی الزام عائد کیا تھا۔

Your browser doesn’t support HTML5

ارشد شریف کو ملک چھوڑنے سے پہلے کن خطرات کا سامنا تھا؟

عدالت نے اپنے فیصلے میں مزید کہا کہ ارشد شریف کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور بغیر کسی وجہ کے اُن کی زندگی کا خاتمہ کر دیا گیا۔

جسٹس سٹیلا موٹوکو نے حکام کو ارشد شریف کیس کی تحقیقات مکمل کرنے اور ذمے دار پولیس اہلکاروں کے خلاف مناسب کارروائی کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔

ارشد شریف کے کینیا میں مبینہ قتل کے بعد پاکستان میں بھی اس معاملے پر مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔ جب کہ سپریم کورٹ نے اس معاملے کا ازخود نوٹس بھی لیا۔ لیکن اب تک کچھ سامنے نہیں آ سکا۔

پاکستان کے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے گزشتہ برس جون میں سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ صحافی ارشد شریف کے قتل کیس کے دو ملزمان کے ریڈ وارنٹ کا عمل پاکستان کی طرف سے مکمل کر لیا گیا ہے۔

ارشد شریف کا شمار پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھے جانے والے صحافیوں میں ہوتا تھا اور وہ 'اے آر وائی نیوز' پر پروگرام کرتے تھے۔ تاہم اپریل 2022 میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد ارشد شریف نے اسے 'رجیم چینج آپریشن' قرار دیا تھا۔

ارشد شریف نے اس کے بعد اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ اپنا لیا تھا اور فوجی قیادت پر کھل کر تنقید کرتے تھے۔

اگست 2022 میں ارشد شریف، اے آر وائی کے مالک سلمان اقبال اور اے آر وائی نیوز کے ہیڈ عماد یوسف کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ ان افراد پر الزام تھا کہ انہوں نے تحریکِ انصاف کے رہنما ڈاکٹر شہباز گل کا فوج سے متعلق متنازع بیان آن ایئر کیا۔

مقدمے کے اندراج کے بعد ارشد شریف پشاور ایئر پورٹ سے دبئی روانہ ہو گئے تھے جہاں سے بعد ازاں وہ کینیا چلے گئے تھے۔ کینیا سے بھی وہ مسلسل اپنے وی لاگز کے ذریعے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کو تنقید کا نشانہ بناتے تھے۔

'ہمیں اب انصاف کی اُمید ہوئی ہے'

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ارشد شریف کی اہلیہ جویریہ صدیق کا کہنا تھا کہ ہمیں کینیا کی عدالت سے انصاف کی امید ہوئی ہے۔ پاکستان میں عدالت میں ایک سال سے ہمیں تاریخ نہیں ملی، پاکستان میں ہی ارشد کو دھمکی دی گئی اور یہیں سے انہیں جانے پر مجبور کیا گیا۔

جویریہ نے کہا کہ میں نے یہ کیس ایک سال قبل مکمل کیا تھا اور اس کی سماعت مکمل ہونے کے بعد مجھے انصاف دیا گیا ہے۔ ہم نے عدالت سے ذمہ دار پولیس افسران کے خلاف کارروائی اور ہونے والی تمام تحقیقات کی دستاویز اور معلومات مانگی تھیں جو عدالت نے ہمیں دینے کا کہا ہے۔

جویریہ نے کہا کہ میں نے غیر ملک میں کیس کیا لیکن وہاں کی عدالت نے اپنے اداروں کے خلاف جا کر میرے حق میں فیصلہ دیا۔ عدالت نے دو بار مجھے سنا اور میرے درد اور تکلیف کو سمجھا۔ لیکن ہماری عدالتوں نے کوئی مدد نہیں کی۔ ارشد نے بھی ملک کی عدالتوں سے مدد مانگی لیکن انہیں کوئی مدد نہیں ملی جس پر مجھے افسوس ہو رہا ہے۔