جمعرات کی صبح سے شروع ہونے والا کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی (کے اِی ایس سی) کے برطرف ملازمین کا احتجاجی دھرنا جمعے کو بھی جاری رہا جہاں کراچی کے علاقے گزری میں ادارے کے مرکزی دفتر کے باہر سینکڑوں ملازمین نے انتظامیہ کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔
کراچی کو بجلی فراہم کرنے والے نجی ادارے، کے اِی ایس سی نے ادارے کی رضاکارانہ علیحدگی اسکیم سے فائدہ نہ اٹھانے والے ملازمین کو بدھ کو برطرف کردیا تھا۔ برطرف کیے گئے ملازمین کا تعلق قاصد، ڈرائیور، خاکروب سمیت 14نچلے درجے کے شعبوں سے ہے۔
ادارے کی ترجمان عائشہ اعرابی نے ملازمین کے احتجاج کو بلا جواز قرار دیتے ہوئے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ ادارے کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے گذشتہ چند ماہ کے دوران غیرضروری اور اضافی اسامیوں کی نشاندہی کرکے 4500 ملازمین کو گولڈن ہینڈ شیک اسکیم کے تحت رضاکارانہ طور پر ملازمت چھوڑنے کی پیش کش کی گئی تھی جِس سے تقریباً دس فی صد ملازمین نے فائدہ اٹھایا جب کہ پیشکش رد کرنے والے ملازمین کو دی گئی مدت ختم ہونے کے بعد برطرف کر دیا گیا ہے۔
کے اِی ایس سی لیبر یونین کے چیرمین، اخلاق احمد نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انتظامیہ کے اقدام کی شدید مذمت کی اور اسکیم کی رقم کو انتہائی کم قرار دیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ ملازمین کی بحالی تک احتجاج جاری رہے گا۔
جمعے کو صوبائی وزرا اور ٕمختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے بھی احتجاجی دھرنے میں شرکت کی اور ملازمین کی بحالی کا مطالبہ کیا۔
وزیرِ اعلیٰ سندھ نے ملازمین کی برطرفی کا نوٹس لیتے ہوئے صوبائی وزیر شازیہ مری کی سربراہی میں چار رکنی کمیٹی بھی تشکیل دی ہے۔
ادھر، احتجاج کے پہلے روز ملازمین نے نہ صرف ادارے کی مرکزی عمارت میں توڑ پھوڑ کی بلکہ احاطے میں موجود انتظامیہ اور افسران کی درجنوں گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچایا۔