کراچی کا ذکرپاکستان کی معیشت ، امن وامان اور سیاست کے حوالے سے تو ہوتا رہتاہے لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ خطے کے اس گنجان آباد ساحلی شہر کودنیا کے بلند ترین پہاڑی سلسلے ہمالیہ کے گلیشیرز کے لیے ایک خطرے کے طورپر دیکھا جارہاہے۔
کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں 2010ء کے شدید ترین سیلابوں اور میدانی علاقوں میں کئی کئی دنوں تک مسلسل چھائے رہنے والے دھند کے گہرے بادلوں میں کراچی اور ملک کے دوسرے بڑے شہروں کا کردار نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
پاکستان میں 2010ء کے ایک معاشی سروے کے مطابق کراچی کی آبادی تقریباً ایک کروڑ 40 لاکھ تھی اور اس کی آبادی پانچ فی صد سالانہ کی رفتار سے بڑھ رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی شہری آبادی کا نصف سے زیادہ حصہ ملک کے آٹھ بڑے شہروں میں آباد ہے اور صحت و صفائی کے غیر تسلی بخش انتظامات اور شعور و آگہی میں کمی کے باعث وہاں ماحولیاتی آلودگی میں مسلسل اضافہ ہورہاہے ۔
ناسا کے ماحولیاتی سائنس کے ایک ماہر ولیم لیو کی زیر قیادت ہونے والی ایک حالیہ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ جنوبی ایشیائی خطے کے گنجان آباد شہر بالخصوص کراچی، نئی دہلی اور ڈھاکہ ہمالیہ پر موجود برف کی ہزاروں سال پرانی پرتوں کے لیے شدید خطرہ بنتے جارہے ہیں اوراگر ان شہروں میں بڑھتی ہوئی آلودگی پر قابو پانے کے لیے مؤثر اقدامات نہ کیے گئے تواس صدی کے وسط تک ہمالیہ کے تمام گلیشیئرز مکمل طورپر پگھل جائیں گے۔
ہمالیہ کا پہاڑی سلسلہ 1550میلوں تک پھیلا ہوا ہے۔ دنیا کی 110 بلندترین چوٹیاں اسی سلسلہ کوہ میں واقع ہیں اور یہاں دس ہزار سے زیادہ گلیشیئرز موجود ہیں جو خطے کے تمام اہم دریاؤں کو تازہ پانی فراہم کرتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ 70 کروڑ سے زیادہ آبادی کی خوراک اور پانی کی ضروریات کا انحصار ہمالیہ پر ہے۔ اسی وجہ سے ماحولیاتی ماہرین شمالی اور جنوبی قطب کے بعد ہمالیہ کو دنیا کا تیسرا قطبی علاقہ قراردیتے ہیں۔
ماحولیات سے متعلق نیپال میں قائم بین الاقوامی مرکز کے ایک ماہر مادھو کارکی نے ہمالیہ پر برف پگھلنے کی رفتار سے خبردار کرتے ہوئے کہاہےکہ علاقے کے ممالک کو اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات کرنے چاہیں کیونکہ ان کی خوراک اور اقتصادیات کا زیادہ تر انحصار ہمالیہ سے آنے والے پانی پر ہے۔
اقوام متحدہ کی ایک اور رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہمالیہ کے گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں اور اس کے کئی حصے برف سے بالکل خالی ہوچکے ہیں۔
میکسیکو کے شہر کین کون میں دسمبر 2010ء میں آب و ہواکی تبدیلیوں سے متعلق عالمی کانفرنس میں پیش کی جانے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ جنوبی ایشیائی خطے کو سب سے بڑا خطرہ اس کے اپنے بڑے شہروں کی پیدا کردہ آلودگی سے ہے۔
رپورٹ کے مطابق کراچی اور خطے کے دوسرے بڑے شہروں کے اکثر گھروں میں کھانا پکانے کے لیے لکڑی، کوئلہ، یا گیس کے ایسے چولہے استعمال کیے جارہے ہیں جن سے خارج ہونے والے دھوئیں میں کاربن کے ذرات کی مقدار خطرے کی حد سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ٹرانسپورٹ میں ناقص ایندھن کے استعمال اور انجن کی معمول کی دیکھ بھال نہ ہونے سے بڑی مقدار میں کاربن گیسیں پیدا ہورہی ہیں۔ علاقے میں موجود کارخانے بھی گرین ہاؤس گیسوں کی سطح میں مسلسل اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔ اور ان سب کا ہدف زیادہ تر ہمالیہ کے گلیشیئرز ہیں۔
ناسا کے ماحولیات سے متعلق ایک سائنس دان جیمز ہنسن کا کہنا ہے کہ ہمالیہ پر موجود برف پگھلنے کی رفتار میں تیز تر اضافے میں نصف کردار خطے کے پیدا کردہ بڑے شہروں کے کاربن اور باقی نصف حصہ گرین ہاؤس گیسوں کا ہے۔
کاربن سے مراد وہ باریک سیاہ ذرات ہیں جو مکمل طورپر جل نہیں پاتے اور گیسوں کے ساتھ شامل ہوکر دھوئیں کی شکل میں فضا میں پھیل جاتے ہیں۔ ماہرین اسے بلیک کاربن کانام دیتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ ذرات برف کے تیزی سے پگھلنے کا اہم سبب ہیں۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ بلیک کاربن فضا میں موجود گرد کے ذرات سے مل کرگہرے بادل بناتا ہے جو زمین پر آنے والی سورج کی تابکاری کو اپنے اندر جذب کرلیتا ہے۔ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے میں پہنچ گردو غبار کے یہ گرم بادل وہاں کا درجہ حرارت بڑھا دیتے ہیں جس سے نہ صرف برف پگھلنے کی رفتار بڑھ جاتی ہے بلکہ شمال کی طرف جانے والی مون سون ہواؤں پربھی دباؤ پڑتا ہے۔
ناسا کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 1960ء کے مقابلے میں ہمالیہ کے گلیشیئرز میں 20 فی صد تک کمی ہوچکی ہے اوراس رفتار میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک طرف جہاں ہمالیہ پر سے برف کی پرتیں معمول سے کہیں زیادہ رفتار سے پگھل رہی ہیں وہاں دوسری جانب قراقرم سلسلہ کوہ کی چوٹیوں پر برف کی تہہ مسلسل بڑھ رہی ہے۔ مگر اس اضافے کے ماہرین ایک اور خطرے کے طورپر دیکھ رہے ہیں اور ان کا کہناہے کہ اس کی وجہ عالمی حدت اور موسمی توازن میں پیدا ہونے والا خلل ہے۔ جس سے کئی علاقوں میں بارشوں کی اوسط معمول سے بڑھ گئی ہے اورکئی ایسے پہاڑوں پر زیادہ برف پڑنے لگی ہے جہاں پہلے اس کی شرح بہت کم تھی۔ اس عدم توازن کا نتیجہ سیلابوں اور قدرتی آفات کی شکل میں سامنے آسکتا ہے۔
ماہرین کا کہناہے کہ 2010ء میں پاکستان میں بڑے پیمانے آنے والے سیلابوں کی ایک وجہ ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے میں رونما ہونے والے موسمیاتی تغیرات تھے،جن میں ایک بڑا کردار کراچی سمیت خطے کے گنجان آباد شہرادا کررہے ہیں۔