|
پاکستان کی وفاقی حکومت نے مالی سال 25-2024 کا بجٹ پیش کردیا ہے جس کا حجم 18 ہزار ارب روپے سے زائد تجویز کیا گیا ہے۔
وزیرِ اعظم میاں محمد شہباز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ (ن) کی اس اتحادی حکومت نے معاشی مشکلات اور اندرونی و بیرونی چیلنجز کے درمیان پہلا بجٹ پیش کیا ہے۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ بجٹ معاشی استحکام کا سبب بنے گا۔ حزبِ اختلاف نے بجٹ کو عوام دشمن قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔
حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے ساتھ ساتھ حکومت کی اتحادی پارٹیوں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے بھی غیر معمولی طور پر بجٹ پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
بجٹ میں ترقیاتی پروگرام، دفاع، تنخواہوں اور بے نظیر انکم سپورٹ کے لیے رقوم میں اضافہ کیا گیا ہے۔
اس رواں سال بجٹ کے کل حجم کا لگ بھگ نصف حصہ ملک پر چڑھنے والے قرضوں کی واپسی اور سود کی ادائیگی میں صرف ہو گا۔
بجٹ پر کاروباری طبقے اور عوام نے ملے جلے ردِ عمل کا اظہار کیا ہے۔
دفاعی بجٹ میں 318 ارب روپے کا اضافہ
وفاقی حکومت نے رواں سال کے بجٹ میں دفاع کے لیے 21 کھرب 22 ارب روپے سے زائد تجویز کیے گئے ہیں۔
برسرِ اقتدار سیاسی جماعتوں کے اتحاد نے پانچ برس پورے ہونے پر گزشتہ برس ختم ہونے والی حکومت میں 24-2023 کے مالی سال کے بجٹ میں دفاع کے لیے 1804 ارب روپے مختص کیے تھے۔
سال 2022 میں قومی اسمبلی میں تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد تحریکِ انصاف کی حکومت ختم ہو گئی تھی جب کہ موجودہ برسرِ اقتدار جماعتوں کے اتحاد نے حکومت قائم کی تھی۔ اسی برس اس اتحادی حکومت نے اپنا پہلا بجٹ بھی پیش کیا تھا۔ اس مالی سال 23-2022 میں دفاع کے لیے 1530 ارب روپے مختص کیے گئے تھے۔
بجٹ | دفاع کے لیے مختص رقم |
سال 25-2024 | 2122 ارب روپے |
سال 24-2023 | 1804 ارب روپے |
سال 23-2022 | 1530 ارب روپے |
اس اعتبار سے دیکھا جائے تو بجٹ 25-2024 میں دفاعی اخراجات میں 310 ارب روپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔
بعض مبصرین کے مطابق 6.9 فی صد کے بجٹ خسارے میں دفاعی اخراجات میں یہ خاطر خواہ اضافہ ہے۔
پاکستان مجموعی بجٹ کا لگ بھگ 12 فی صد اپنے دفاع پر خرچ کر رہا ہے۔
پاکستان میں اعلیٰ حکام کے مطابق اسلام آباد کے لیے پڑوسی ملک بھارت کا بڑھتا ہوا دفاعی بجٹ ہمیشہ چیلنج رہا ہے۔
بھارت کا دفاعی بجٹ لگ بھگ 76 ارب ڈالر ہے یعنی بھارت پاکستان کی نسبت اپنے ایک فوجی پر سالانہ چار گنا زیادہ خرچ کرتا ہے۔
دفاعی امور کی ماہر ڈاکٹر ہما بقائی کہتی ہیں کہ دفاعی بجٹ میں 17 فی صد سے زائد اضافہ کیا گیا ہے جو کہ گزشتہ چھ سال میں دوسرا بڑا اضافہ ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان مشرقی و مغربی سرحد پر خطرات سے نمٹنے کے علاوہ اندرونی خطرات سے بھی نمٹ رہا ہے۔ تاہم فوجی اہلکاروں کی پینشن کو سول حکومت پر نہیں ڈالنا چاہیے جو کہ بہت سی بجٹ مشکلات سے دوچار ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ دفاع کے بجٹ میں جنگی اخراجات میں اضافے پر اعتراض نہیں ہے لیکن غیر جنگی اخراجات کم ہونے چاہئیں۔
دفاعی امور کی تجزیہ نگار ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ خسارے کے بجٹ اور مشکل معاشی حالات میں دفاعی بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کو قبول کرنا مشکل ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ داخلی خطرات اور افغانستان سے درپیش صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے انٹیلی جینس اور پولیس پر زیادہ بجٹ خرچ کرنے کی ضرورت ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ بھارت سے پاکستان کے دفاعی اخراجات کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ اس کی معیشت ہم سے بہتر ہے۔
اُن کے بقول معیشت کی خراب صورتِ حال میں فوج کو اپنے غیر جنگی اخراجات کم کرنے چاہئیں۔
آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک بھارت سالانہ دِفاعی اخراجات کے حوالے سے عالمی سطح پر تیسرا بڑا ملک ہے جس کا دِفاعی بجٹ پاکستان کی نسبت سات گنا زیادہ ہے۔
اس کے علاوہ بھارت پانچ برس کے دوران سالانہ 19 ارب ڈالر خرچ کرکے دنیا کا دوسرا بڑا اسلحہ درآمد کرنے والا ملک بھی بن چکا ہے۔ بھارت کے اسلحے کی خریداری کے اخراجات پاکستان کے مجموعی دفاعی بجٹ سے دگنے ہیں۔
قرض ادائیگی پر نصف بجٹ صرف
وفاقی حکومت کے آئندہ مالی سال کی بجٹ دستاویز کے مطابق پاکستان کے 18 ہزار ارب روپے سے زائد کے بجٹ میں میں سود کی ادائیگی 50 فی صد ہے۔
اقتصادی جائزہ رپورٹ کے مطابق مارچ 2024 تک پاکستان کا مجموعی قرضہ 67 ہزار 525 ارب روپے تھا جس میں ملکی قرضہ 43 ہزار 432 ارب جب کہ بیرونی قرضہ 24 ہزار 93 ارب روپے ہے۔
مارچ 2023 میں اس قرضے کا حجم 59 ہزار 247 ارب تھا یعنی قرض میں آٹھ ہزار 278 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔
بجٹ دستاویز کے مطابق پاکستان کو آئندہ مالی سال میں ملکی قرضوں پر 9775 ارب روپے سود کی ادائیگی کرنی پڑے گی۔
ترقیاتی بجٹ میں ایک ہزار ارب روپے کا اضافہ
اگلے مالی سال وفاق اور صوبے مل کر ترقیاتی منصوبوں پر 3792 ارب روپے خرچ کریں گے۔
رواں مالی سال کے مقابلے میں مجموعی قومی ترقیاتی بجٹ میں 1012 ارب روپےکا اضافہ کیا گیا ہے۔
وفاقی ترقیاتی بجٹ 550 ارب اضافے کے ساتھ 1500 ارب روپے مقرر کیے جائیں گے جب کہ چاروں صوبوں کا سالانہ ترقیاتی پلان 462 ارب روپے اضافے سے 2095 ارب روپے ہو گیا ہے۔
صوبوں میں سندھ ترقیاتی منصوبوں پر سب سے زیادہ 764 ارب روپے خرچ کرے گا جب کہ پنجاب نے 700 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ مقرر کیا ہے۔
خیبر پختونخوا نے 351 ارب اور بلوچستان نے 281 ارب روپے ترقیاتی بجٹ کے لیے مختص کیے ہیں۔
صوبہ | ترقیاتی بجٹ |
---|---|
پنجاب | 700 ارب روپے |
سندھ | 764 ارب روپے |
خیبر پختونخوا | 251 ارب روپے |
بلوچستان | 281 ارب روپے |
حکومت کو امید ہے کہ ترقیاتی بجٹ میں اضافے سے مجموعی قومی پیداوار کی شرح میں اضافہ ممکن ہو گا جو مالی سال 24-2023 کے دوران 2.4 فی صد رہا۔
آئندہ مالی سال کے لیے جی ڈی پی کا ہدف 3.6 فی صد رکھا گیا ہے۔
مہنگائی کی شرح 12 فی صد رکھنے کا ہدف
حکومت نے آئندہ مالی سال میں مہنگائی کا ہدف 12 فی صد رکھا ہے۔ رواں مالی سال میں مہنگائی 24.5 فی صد ریکارڈ کی گئی۔
مالی سال 24-2023 کے لیے بجٹ میں مہنگائی کا ہدف 21 فی صد رکھا گیا تھا۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ رواں سال مہنگائی کو قابو میں رکھے گی تاکہ عام آدمی کی زندگی کو آسان بنایا جاسکے۔
وزیرِ خزانہ کہتے ہیں کہ مہنگائی کم ہوکر 11 فی صد پر آگئی ہے اور اسے مزید کم کرکے سنگل ڈیجٹ پر لے آئیں گے۔
انہوں نے کہا کہ مہنگائی میں کمی کی وجہ سے ہی اسٹیٹ بینک نے شرح سود کو کم کیا ہے۔
بجٹ 25-2024 سے متعلق مزید جانیے
نیا بجٹ: تمام استثنیٰ ختم، ٹیکسوں میں اضافہ، شمسی توانائی صنعت کی حوصلہ افزائیرپورٹر ڈائری: قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں پیپلز پارٹی کے تین ارکان کی علامتی شرکت اور اپوزیشن کا مسلسل شور شرابہ پاکستان کا اقتصادی سروے: اہم اہداف کے حصول میں ناکامی، معیشت میں بہتری کے دعوے اٹھارہ ہزار ارب روپے سے زائد کا وفاقی بجٹ؛ ٹیکس محصولات میں اضافے کا ہدفملک میں اپریل میں مہنگائی کی شرح 17.3 فی صد تھی جو گزشتہ سال مئی میں 38 فی صد کی تاریخی بلندی پر پہنچ چکی تھی۔
حکومت کو امید ہے کہ عالمی سطح پر مہنگائی میں کمی کے پیشِ نظر آئندہ برس پاکستان میں مہنگائی کی شرح میں بتدریج کمی ہو گی۔ تاہم اسے ایک ہندسے میں لائے بغیر عام آدمی کی مشکلات کم نہیں ہوں گی۔
گزشتہ دو برس میں ملک میں مہنگائی کی شرح بہت زیادہ رہی ہے جس سے عام آدمی کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔