پاکستان کے دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ یہ تاثر درست نہیں کہ امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد کا دورہٴ پاکستان ملتوی ہوگیا ہے، کیونکہ اس دورے کی تاریخ ابھی طے کی جا رہی ہے۔
یاد رہے کہ سفیر زلمے خلیل زاد افغان امن و مصالحت کی کوششوں کو بڑھانے کے لیے8 نومبر سے خطے کے دورے پر ہیں، اور امریکہ کے دفتر خارجہ نے قبل ازیں ایک بیان میں کہا تھا کہ اس دورے کے دوران وہ پاکستان بھی جائیں گے۔
جمعرات کو معمول کی ہفتہ وار بریفنگ کے دوران زلمے خلیل زاد کے دورے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ترجمان دفتر خارجہ محمد فیصل نے کہا کہ سفیر خلیل زاد کے دورہ اسلام آبادکی تاریخ سفارتی چینلز کے ذریعے طے کی جا رہی ہے۔
محمد فیصل نے کہا کہ ’’زلمے خلیل زاد نے گزستہ ماہ اسلام آباد کا دورہ کیا تھا اور ہم ان کے ساتھ مستقبل میں دوبارہ بات چیت کے منتظر ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ان کے دورے کی آئندہ تاریخ طے کرنے کے لیے دونوں ملکوں کے سفارت کار ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں ہیں۔
تاہم، پاکستان دفتر خارجہ کے ترجمان نے وضاحت کی ہے کہ ’’یہ کہنا مناسب نہیں ہوگا کہ ان کا دورہ ملتوی ہوگیا ہے‘‘، بلکہ، ان کے بقول، ’’اس کی تاریخیں طے کی جارہی ہیں‘‘۔
واضح رہے کہ امریکہ کے محکمہ خارجہ کی ترجمان نے قبل ازیں ایک بیان میں کہا تھا کہ زلمے خیل زاد 8 نومبر سے خطے کا دورہ کریں گے، جس دوران وہ افغانستان، پاکستان، متحدہ عرب اور قطر بھی جائیں گے۔
اطلاعات کے مطابق، زلمے خلیل زاد نے پاکستانی عہدیداروں سے بات چیت کے لیے رواں ہفتے اسلام آباد پہنچنا تھا۔ تاہم، پاکستانی دفتر خارجہ کےترجمان نے کہا کہ زلمے خلیل زاد کے دورے کی تاریخ ابھی طے ہونا باقی ہے۔
ترجمان کا بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب پاکستان کے دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان 20 سے 21 نومبر کو ملائیشیا کا دورہ کریں گے اور اس دورے کے دوران ایک اعلیٰ سطح کا وفد ان کے ہمراہ ہوگا۔
زلمے خلیل زاد نے خطے کے اپنے حالیہ دورے کے دوران افغانستان، متحدہ عرب امارات اور قطر جائیں گے جہاں طالبان کا سیاسی دفتر بھی واقع ہے اور اس دورے کو طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوششوں کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔
طالبان کا کہنا ہے کہ ان کے وفد نے گزشتہ ماہ قطر میں خلیل زاد سے ملاقات کی تھی جس کے بعد پاکستان نے طالبان کے سینئر رہنما عبدالغنی برادر کو رہا کیا تھا جنہیں 2010ء میں کراچی میں پاکستانی اور امریکی اہلکاروں نے ایک مشترکہ کارروائی کے دوران گرفتار کیا تھا۔
طالبان ایک عرصے سے ملا برادر کی رہائی کا مطالبہ کرتے آرہے تھے۔
تاہم، پاکستان کے دفترِ خارجہ کے ترجمان نے گزشتہ ہفتے دفترِ خارجہ میں معمول کی ہفتہ وار بریفنگ کے دوران کہا تھا کہ ملا برادار کی رہائی امریکہ کی درخواست پر عمل میں آئی جس کا مقصد افغان امن تنازع کے سیاسی حل کی مشترکہ کوششیں آگے بڑھانا ہے۔
پاکستان امریکہ تعلقات کا ذکر کرتے ترجمان نے کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں چیلنج موجود ہیں اور ان سے نمنٹنے کے لیے پاکستان پائیدار بنیادوں پر باہمی رابطوں کو جاری رکھنے کو مفید خیال کرتا ہے۔