کنگ سلمان نے خشوگی کی گمشدگی کا معاملہ اپنے ہاتھ میں لے لیا

انسانی حقوق کے کارکن استنبول میں سعودی قونصلیٹ کے باہر خشوگی کی تصاویر کے ساتھ احتجاج کر رہے ہیں۔ 9 اکتوبر 2018

روئیٹرز میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ منحرف سعودی صحافی جمال خشوگی کی استنبول کے سعودی قونصلیٹ کے اندر جانے کے بعد مبینہ گمشدگی اور ہلاکت کے امکان نے سعودی کنگ سلمان کو صورت حال میں مداخلت کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔

خبررساں ادارے نے سعودی شاہی خاندان نے منسلک پانچ ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ بادشاہ نے اس بحران کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش میں اپنے انتہائی قابل اعتماد شہزادے خالد الفیصل کو، جو مکہ کے گورنر ہیں، استنبول بھیجا۔

پرنس خالد الفیصل، گورنر مکہ

خشوگی کی گمشدگی کے بعد عالمی راہنما اس معاملے پر اپنے خدشات کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ وضاحت بھی طلب کر رہے تھے جس سے سعودی شاہی خاندان کے بعض حلقوں میں ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے متعلق تشویش ابھرنا شروع ہوئی جسے چند سال پہلے بادشاہ نے اپنے زیادہ تر اختیارات تفویض کر دیے تھے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ بادشاہ اب خشوگی کی گمشدگی سے منظر عام پر آنے والے نتائج پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

شہزادہ خالد کے استنبول کے دورے کے موقع پر ترکی اور سعودی عرب نے خشوگی کی گمشدگی کی تحقیقات کے لیے ایک مشترکہ ورکنگ گروپ قائم کرنے پر اتفاق کیا۔ اس کے ساتھ ہی سعودی بادشاہ نے پبلک پراسیکیوٹر کو حکم دیا کہ وہ اس سلسلے میں حاصل ہونے والی معلومات پر ایک انکوائری شروع کریں۔

سعودی کنگ سلمان، صحافی جمال خشوگی کی گمشدگی سے منظر عام پر آنے والے نتائج پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ذرائع کہتے ہیں کہ ترکی بھیجنے کے لیے پرنس خالد کا انتخاب اس لیے کیا گیا کیونکہ وہ بادشاہ کے ایک قابل اعتماد مشیر ہیں۔ وہ اس کام کے لیے انتہائی موزوں ہیں کیونکہ ان کی ترکی کے صدر اردوان کے ساتھ گہرے تعلقات اور دوستی ہے۔

شاہی خاندان سے قریبی تعلق رکھنے والی ایک شخصیت کا کہنا ہے کہ پرنس خالد اور صدر اردوان کے درمیان ملاقات میں یہ تاثر موجود تھا کہ بادشاہ خود اس معاملے کو حل کرنا چاہتے ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ابتدا میں بادشاہ اس چیز سے بے خبر تھا کہ خشوگی کا بحران کس سطح پر پہنچ گیا ہے۔ کیونکہ انہوں نے سلطنت کے روزمرہ امور ولی عہد محمد بن سلمان کو سونپ دیے تھے۔

ذرائع نے بتایا کہ صورت حال اس وقت تبدیل ہونا شروع ہوئی جب ان چینلز پر، جنہیں بادشاہ بھی دیکھتے ہیں، خشوگی کی گمشدگی کی خبریں آنے لگیں۔ جس کے بعد بادشاہ نے اس بارے میں اپنے مشیروں اور ولی عہد سے پوچھنا شروع کیا۔ اور پھر جب خشوگی کے معاملے نے ایک عالمی بحران کی شکل اختیار کر لی تو ولی عہد نے بادشاہ سے درخواست کی کہ وہ اس مسئلے میں مداخلت کریں۔

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو، ریاض میں سعودی کنگ فیصل سے ملاقات کر رہے ہیں۔ 16 اکتوبر 2018

کنگ سلمان نے جنوری 2015 میں اپنے زیادہ تر اختیارات اپنے پسندیدہ بیٹے اور ولی عہد محمد بن سلمان کو سونپ دیے تھے جس سے امور مملکت چلانے کے لیے 32 سالہ نوجوان شہزادے کی طاقت میں اضافہ ہوا۔ ذرائع کہتے ہیں کہ بادشاہ کی جانب سے خشوگی کے معاملے میں تازہ مداخلت یہ ظاہر کرتی ہے کہ حکومت چلانے کی ان کا اہلیت پر شاہی خاندان کے اندر سوالات اٹھ رہے ہیں۔

خشوگی کے معاملے میں سعودی بادشاہ کی مداخلت یہ ظاہر کرتی ہے کہ سلطنت کے امور چلانے میں ولی عہد کی اہلیت پر شاہی خاندان میں تشویش پیدا ہو رہی ہے

ولی عہد نے اپنے اقتدار میں خواتین کے حقوق اور کئی دوسرے معاملات میں اصلاحات کی ہیں جنہیں دنیا بھر میں سراہا گیا ہے۔ لیکن دوسری جانب منحرفین کی پکڑ دھکڑ، بدعنوانی کے الزامات لگا کر سعودی کاروباری شخصیات کے خلاف کارروائی اور یمن کے خلاف مہنگی جنگ کے باعث انہیں نکتہ چینی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اور اب خشوگی کی گمشدگی کے حالیہ واقعہ نے ولی عہد کی شہرت کو مزید نقصان پہنچایا ہے۔

سعودی عرب کے مغربی اتحادیوں اور کئی اہم سعودی حلقوں میں بھی یہ سوال اٹھنے شروع ہو گئے ہیں کہ آیا ولی عہد ملک کی قیادت کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔

سعودی عرب متعدد بار خشوگی کی گمشدگی سے اپنی لا تعلقی کا اعلان کرتے ہوئے کہہ چکا ہے کہ اس کا اس واقعہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن شاہی خاندان کے ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکہ کے رد عمل کی وجہ سے بادشاہ کو اس معاملے میں مداخلت کرنی پڑی۔

صدر ٹرمپ خشوگی سے متعلق ایک سوال کا جواب دے رہے ہیں۔ 18 اکتوبر 2018

ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ ابتدا میں ولی عہد اور ان کے مشیروں نے یہ سوچا کہ یہ بحران قابو میں آ جائے گا۔ لیکن جب ان کے اندازے غلط نکلے اور صورت حال قابو سے باہر ہونے لگی اور دنیا بھر میں شور مچ گیا تو ولی عہد نے اپنے والد سے کہا کہ اب یہ معاملہ انہیں سنبھالنا ہو گا۔

شاہی خاندان کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ ولی عہد ایک ایسی مصنوعی دنیا میں رہ رہے ہیں جو انہوں نے خود ہی تخلیق کی ہے۔

سعودی صحافی جمال خشوگی، شاہی خاندان پر کڑی نکتہ چینی کرتے تھے۔ وہ امریکہ میں رہ رہے تھے اور واشنگٹن پوسٹ کے لیے کام کرتے تھے۔ 2 اکتوبر کو وہ نجی کام کے سلسلے میں استنبول میں سعودی قونصلیٹ گئے جس کے بعد سے وہ لاپتا ہیں۔ ترک پولیس کا کہنا ہے کہ انہیں قونصلیٹ کے اندر قتل کر نے کے بعد نعش ٹکڑے ٹکڑے کر کے غائب کر دی گئی۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ اس کے پاس موجود آڈٰیو اور ویڈیوز سے اس کی تصدیق کرتی ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ بھی کہہ چکے ہیں کہ ان کا خیال ہے کہ خشوگی مر چکا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر ایسا ہوا ہے تو امریکہ کا ردعمل بہت سخت ہو گا۔

ترک پولیس سعودی قونصلیٹ میں شواہد اکھٹے کرنے کے لیے داخل ہو رہی ہے۔ 17 اکتوبر 2018