وفاقی وزیر توانائی اور مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما خرم دستگیر خان کہتے ہیں کہ فوج نے سیکیورٹی کی یقین دہانی کرا دی ہے جس کے بعد انتخابات میں تاخیر کا جواز باقی نہیں رہتا۔
وائس آف امریکہ کو دیے گئے انٹرویو میں اُن کا کہنا تھا کہ حکومت نے الیکشن کمیشن کو درکار فنڈر بھی مہیا کر دیے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ یہی دو مسائل تھے جو حل کر دیے گئے ہیں اور اب چاروں صوبوں اور وفاق میں ایک ساتھ انتخابات ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ اسمبلی اپنی مدت مکمل کر رہی ہے اور آئین کے مطابق نومبر کے پہلے 10 روز میں انتخابات ہو جائیں گے۔
Your browser doesn’t support HTML5
خرم دستگیر کے بقول انتخابات کے لیے حکومت نے نہ صرف بجٹ میں فنڈز مختص کیے بلکہ رواں ہفتے الیکشن کمیشن کو انتخابات کی تیاری کے لیے نصف فنڈز جاری بھی کر دیے گئے ہیں۔
خیال رہے کہ پاکستان میں قیاس آرئیاں کی جا رہی ہیں کہ عام انتخابات میں تاخیر ہو سکتی ہے اور اس عرصے میں بااختیار عبوری حکومت ملکی نظم و نسق چلائے گی۔ تاہم حکومتی وزرا اس تاثر کی تردید کرتے ہیں۔
'اصلاحات کے بعد شفاف انتخابات الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے'
خرم دستگیر کہتے ہیں کہ موجودہ پارلیمنٹ نے الیکشن کمیشن کے اختیارات میں اضافہ کرتے ہوئے انتخابات کی تاریخ کا اختیار انہیں دے دیا ہے۔
مردم شماری کے نتائج جاری نہ ہونے پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آئندہ ہفتے مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں اتفاقِ رائے نہ ہوا تو آئین اجازت دیتا ہے کہ پرانی مردم شماری کے تحت الیکشن ہوں۔
خرم دستگیر کہتے ہیں کہ ماضی کے تجربے کو دیکھتے ہوئے اصلاحات منظور کر دی گئی ہیں اور اب الیکشن کمیشن پر ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عام انتخابات کو شفاف بنائے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں نے 2018 کے انتخابات میں زخم کھائے ہیں اور وہ سب چاہتے ہیں کہ آئندہ انتخابات شفاف ہوں۔
ان کے بقول 2008 سے جمہوریت کی بحالی کے بعد جو بھی سبق سیکھے ان کا امتحان 2023 کے انتخابات میں ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ ریاست کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ عوام کو یہ اعتماد دے کہ آئندہ آنے والی حکومت ان کے ووٹ سے وجود میں آئے گی۔
خرم دستگیر نے کہا کہ انتخابی قوانین میں پائے جانے والے ابہام دور کر دیے گئے ہیں اور الیکشن کمیشن کے لیے اب کوئی امر معنی نہیں ہے کہ وہ شفاف انتخابات نہ کرا سکیں۔
'نگراں حکومت کے اختیارات کا مقصد معاشی تسلسل ہے'
انتخابی اصلاحات پر پی ٹی آئی کے اعتراضات پر گفتگو کرتے ہوئے حکومتی رہنما نے کہا کہ یہ ان کا جمہوری حق ہے اور انہوں نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اپنا اختلاف رائے بیان کیا ہے۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ حکومت میں شامل جماعتوں نے گزشتہ عام انتخابات میں دو تہائی ووٹ حاصل کیے تھے۔
نگران حکومت کو دیے گئے اضافی اختیارات کے بارے میں بات چیت کرتے ہوئے لیگی رہنما نے کہا کہ ان اختیارات کا مقصد معاشی پالیسی کا تسلسل قائم رکھنا ہے۔
خرم دستگیر خان کہتے ہیں کہ موجودہ چیف جسٹس کی مسلم لیگ (ن) سے متعلق جانب داری سب کے سامنے ہے۔ لہذٰا اُن کے ہوتے ہوئے نواز شریف کو انصاف ملنا مشکل ہے اور یہی وجہ ہے کہ اُن کی وطن واپسی کی راہ ہموار نہیں ہو سکی۔