خیبر پختونخوا میں خواتین کے حقوق کے تحفظ اور اُنہیں ہراساں کرنے والوں کے خلاف کاروائی کے لئے قائم محتسب کے دفتر نے سابقہ نیم قبائلی علاقے درہ آدم خیل سے تعلق رکھنے والی تین خواتین کو نہ صرف وراثتی جائیداد بلکہ برادری کو کوئلہ کے کانوں کی آمدنی میں حصہ دلوانے کی درخواستیں منظور کر کے حکام کو اس کا تعین کرنے کی ہدایت کی ہے۔
26 مئی 2018 کو خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے کسی بھی قبائلی علاقے میں خواتین کو وراثت میں حصہ دلوانے کا یہ ایک منفرد فیصلہ ہے، کیونکہ ان قبائلی اضلاع اور علاقوں میں نہ تو بندوبست اراضی کی گئی ہے اور نہ یہاں کی خواتین کو جائیداد یا دیگر املاک میں حصہ دیا جاتا ہے۔
تاہم ان علاقوں سے تعلق رکھنے والے قبائلیوں کے خیبر پختونخوا یا ملک کے دیگر علاقوں میں موجود جائیدادوں اور املاک میں خواتین کو اراضی یا لیٹنڈ ریونیو میں قانون کے تحت حصہ دیا جاتا ہے۔
پشاور میں خاتون محتسب دفتر کے عہدیداروں نے بتایا کہ پشاور کو خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع سے ملانے والی نیم قبائلی پٹی درہ آدم خیل سے تعلق رکھنے والی تین بہنوں نے ایک درخواست دائر کی تھی جس میں اُنہوں نے وراثتی جائیداد بالخصوص کوئلہ کی کانوں سے حاصل ہونے والی آمدن میں حصہ دلوانے کی اپیل کی تھی۔
درہ آدم خیل کے ذیلی شاخ قاسم خیل کے ان تین بہنوں نے ایک مقامی اردو اخبار میں خاتون محتسب کے بارے میں شائع ہونے والی خبر کے بعد درخواست دائر کی تھی جب کہ خاتون محتسب نے اس درخواست پر باقاعدہ کاروائی شروع کر کے ان خواتین کے دیگر رشتہ داروں کو کوہاٹ کی ضلعی انتظامیہ کے ذریعے نوٹسز جاری کر دیے اور بعد میں نہ صرف مدعی خواتین بلکہ مدعا علیہ نے بھی خاتون محتسب کے دفتر/عدالت میں حاضر ہوکر بیانات قلمبند کرائے۔
عہدیداروں نے بتایا کہ منگل کے روز مدعا علیہ نے خاتون محتسب کی عدالت میں باقاعدہ طور پر تین خواتین رشتہ داروں کی حیثیت کو تسلیم کرکے اُنہیں قانون وراثت اور لینڈ ریونیو کے قوانین کے مطابق حصہ دلوانے کی حق کو تسلیم کیا۔
خاتون محتسب نے اس سلسلے میں کوہاٹ کے ڈپٹی کمشنر اور درہ آدم خیل کے اسسٹنٹ کمشنر کو تمام جائیداد کے تعین اور کوئلہ کے کانوں سے حاصل ہونے والی آمدنی کی تعین کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے آئندہ 3 مارچ کو رپورٹ جمع کرنے کی ہدایت کی۔
Your browser doesn’t support HTML5
خاتون محتسب کے دفتر کے عہدیداروں نے بتایا کہ درخواست دائر کرنے والوں نے کہا ہے کہ کوئلہ کے کانوں سے پچھلے 2 سالوں کے دوران حاصل ہونے والی آمدنی 70 کروڑ روپے کے لگ بھگ ہے۔
خاتون مختسب کے فیصلے کے مطابق ملک میں رائج قانون وراثت کے تحت ان تینوں خواتین کو بھی کوئلہ کے کانوں سے حاصل ہونے والی آمدنی میں حصہ ملے گا جو سابقہ قبائیلی علاقوں یا خیبر پختونخوا کے قبائلی اضلاع کے تاریخ میں ایک منفرد فیصلہ دکھائی دیتا ہے۔
درخواست دائر کرنے والی ایک خاتون کے بیٹے واجد خان آفریدی نے خاتون محتسب کے اس فیصلے پر خوشی کا اظہار کیا ہے اور اس نے محتسب اور انکے عملے میں شامل عہدیداروں کا بھی شکریہ ادا کیا ہے۔
قبائلی علاقوں میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لئے سرگرم نوشین فاطمہ اورکزئی نے وائس آف امریکہ کے ساتھ بات چیت میں اس فیصلے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اسے ایک اہم پیش رفت قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے کو اب آگے لے جانے کی ضرورت ہے تاکہ خیبر پختونخوا بالخصوص قبائلی اضلاع کے خواتین کو ان کے جائز حقوق میسر ہو جائیں۔
خاتون محتسب کے دفتر میں مختلف سرکاری، نیم سرکاری، خودمختار اور نجی اداروں میں کام کرنے والی خواتین کے علاوہ ابھی تک 130 درخواستیں خواتین کے وراثتی جائیداد میں حصہ لینے کیلئے دائر کی گئی ہیں۔ ابھی تک ان درخواستوں میں سے پانچ پر فیصلے کئے جا چکے ہیں۔ درخواست دائر کرنے والی خواتین کا تعلق خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں سے ہے۔