خیبر پختونخوا کے ضلعے شمالی وزیرستان میں غیرت کے نام پر دو چچا زاد بہنوں کو قتل کرنے والے مبینہ ملزم کو پولیس نے گرفتار کر لیا ہے۔
گزشتہ ہفتے درج ہونے والے مقدمے میں مجموعی طور پر پانچ ملزمان کو گرفتار کیا جا چکا ہے جب کہ پولیس نے کیس میں مزید کارروائی شروع کر دی ہے۔
شمالی وزیرستان کے ضلعی پولیس افسر شفیع اللہ گنڈا پور نے بدھ کی شام مبینہ مرکزی ملزم محمد اسلم کو ملحقہ قبائلی ضلعے جنوبی وزیرستان کی تحصیل لدھا سے گرفتار کرنے کی تصدیق کی ہے۔
پولیس افسر شفیع اللہ گنڈا پور نے بتایا کہ محمد اسلم دونوں چچا زاد بہنوں کو قتل کرنے کے بعد روپوش ہوگیا تھا۔
دونوں لڑکیوں کو ایک مقامی شادی شدہ نوجوان کے ساتھ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد چچا زاد بھائی محمد اسلم نے مبینہ طور پر قتل کر دیا تھا۔
پولیس اس کیس میں پہلے ہی چار ملزمان کو گرفتار کر چکی ہے۔
دو روز قبل پولیس نے بتایا تھا کہ شمالی وزیرستان میں غیرت کے نام پر دو خواتین کو قتل کرنے کے الزام میں چار ملزمان کو گرفتار کیا گیا ہے۔
ضلعی پولیس افسر شفیع اللہ خان گنڈا پور نے کہا تھا کہ تحصیل رزمک کے علاقے گڑی یوم میں 14 مئی کو دو خواتین کے غیرت کے نام پر قتل میں ملوث چار ملزمان گرفتار کیے گئے ہیں۔
شمالی وزیرستان کے مرکزی قصبے میران شاہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے شفیع اللہ خان گنڈا پور نے کہا تھا کہ ویڈیو بنانے والا، اسے وائرل کرنے والا اور دونوں لڑکیوں کے والد گرفتار کیے گئے ہیں۔
گرفتار چار ملزمان کی تفصیلات بتاتے ہوئے پولیس افسر کا مزید کہنا تھا کہ شمالی وزیرستان میں غیرت کے نام پر ایک افسوس ناک واقعہ پیش آیا جو کہ قبائلی عوام کے رسم و رواج کے بھی خلاف ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ واقعے کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد کیس کی سائنسی اور تیکنیکی طریقے سے کامیابی سے تفتیش جاری ہے۔
شفیع اللہ خان گنڈا پور نے مزید کہا تھا کہ گرفتار ملزمان میں عمر ایاز نامی نوجوان بھی شامل ہے جس نے لڑکیوں کے ساتھ ویڈیو بنائی تھی جب کہ زیر حراست گڑیوم گاؤں کے ایک اور رہائشی ملزم فدا محمد پر شک ہے کہ مذکورہ ویڈیو اس نے وائرل کی تھی۔
انہوں نے بتایا تھا کہ مقدمے کے مرکزی ملزم اور لڑکیوں کو گولیاں مار کر قتل کرنے والے ملزم محمد اسلم خان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایک اور ملزم روح الدین جو دونوں لڑکیوں کا چچا زاد بھائی ہے، بھی زیر حراست ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے جائے وقوع سے ثبوت مٹانے کی کوشش کی جس کا مقدمہ رزمک تھانے میں درج کیا گیا۔
واقعے کے بارے میں ضلعی پولیس آفیسر نے کہا کہ دونوں لڑکیاں آپس میں چجا زاد بہنیں تھیں۔ دونوں کو ان کے چچا زاد بھائی محمد اسلم نے غیرت کے نام پر قتل کیا ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ دوران تفتیش معلوم ہوا کہ مذکورہ خاندان جنوبی وزیرستان سے آپریشن 'راہ نجات' کے دوران ہجرت کرکے یہاں شمالی وزیرستان کے گاؤں گڑیوم منتقل ہوا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ مقتول لڑکیوں کے خاندان کے مطابق وائرل ہونے والی وڈیو ایک سال قبل بنائی گئی تھی۔ 52 سیکنڈز کی ویڈیو میں نظر آنے والی تین لڑکیوں میں سے دو کو قتل کیا گیا جب کہ ایک لڑکی کو چھوڑ دیا گیا۔
بنوں کے ریجنل پولیس آفیسر عبد الغفور آفریدی نے بھی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی تھی تاکہ مقدمے کے ہر پہلو کا جائزہ لیا جا سکے۔
ضلعی پولیس افسر کا کہنا تھا کہ شمالی وزیرستان میں اس نوعیت کیس چیلنج تھا۔ خاندان والے علاقائی رسم و رواج کو مد نظر رکھتے ہوئے کسی بھی قسم کی قانونی کارروائی نہیں کرنا چاہتے تھے۔
ان کا دعویٰ تھا کہ پولیس نے سرکاری مدعیت میں مقدمہ درج کرکے کافی حد تک کامیابی حاصل کی ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ مرکزی کردار محمد اسلم کی گرفتاری کے لیے کراچی پولیس سے قانونی طور پر رابطے میں ہیں۔ اسی طرح وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی سائبر کرائم برانچ سے وائرل ویڈیو کو سوشل میڈیا سے ہٹانے کے لیے بھی رابطہ کیا گیا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ضلعی پولیس افسر نے کہا تھا کہ شمالی وزیرستان سمیت دیگر قبائلی اضلاع کے حالات دیگر علاقوں سے مختلف ہیں۔ یہاں اس قسم کے واقعات میں ملوث افراد کو پہلے بھی قتل کیا جاتا رہا ہے۔
ان کے بقول پولیس کی کوشش ہے کہ یہ ویڈیو وائرل نہ ہو جب کہ آئندہ کے لیے بھی اس قسم کو روکا جائے۔
قبائلی علاقوں میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم زہرہ وزیر نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دو معصوم بچیوں کو قتل کر دیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ انضمام کے بعد خواتین پر ظلم و جبر کے خاتمے کی توقع تھی مگر بدقسمتی سے ماضی کے طرح اب بھی خواتین ظلم کا شکار ہیں۔