نیویارک کے ماؤنٹ سنائی ہسپتال کی جانب سے کی گئی تحقیق کے مطابق امریکی سکولوں میں بچوں کو خوراک سے الرجی کے باعث تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے
واشنگٹن —
امریکہ کے سکولوں میں بچوں کو تضحیک کا نشانہ بنانا یا چھیڑنا جسے bullying کہا جاتا ہے، ایک پرانا مسئلہ ہے۔ لیکن، سکولوں کا ایک نیا مسئلہ اُن بچوں کا ہے جو مختلف الرجیز کا شکار ہوتے ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ طلبہ، والدین اور اساتذہ کو اندازہ نہیں کہ اس کا نتیجہ بھیانک بھی ہو سکتا ہے۔
نیویارک کے ماؤنٹ سنائی ہسپتال کی جانب سے کی گئی ایک نئی تحقیق کے مطابق جن بچوں کو کھانے کی کسی چیز سے الرجی ہوتی ہے ان کی ایک تہائی اکثریت کو اس کیفیت کی وجہ سے سکول میں تضحیک یا bullying کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس تحقیق میں 250 کے لگ بھگ بچے اور والدین شامل تھے۔
وہ طلبہ جو اپنے ان ساتھی طالبعلموں کو تنگ کرتے ہیں جو کسی الرجی میں مبتلا ہوتے ہیں یہ نہیں جانتے کہ ایسا کرنا ان کی جان بھی لے سکتا ہے۔ مثلاً کسی ایسے ساتھی کے لنچ میں سے (جو کسی الرجی کا شکار ہو) صرف مونگ پھلی کا ایک دانہ ہی کھانے سے وہ اپنی زندگی داؤ پر لگا سکتے ہیں۔ ان کا جسم بعض اوقات کسی مرض کے خلاف مدافعت نہیں رکھتا اور نتیجتا وہ خود بھی اسی مرض میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔ بعض اوقات حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں اور ایسے بچوں کا جسم شاک میں چلا جاتا ہے جس سے موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔
نیو یارک کے تحقیق دانوں کا کہنا ہے کہ امریکہ میں آٹھ فیصد بچوں کو خوراک کی کسی نہ کسی چیز سے الرجی ہوتی ہے۔
ڈاکٹر روبی پاونکر ٹوکیو میں ’ورلڈ الرجی آرگنائزیشن‘ کی سربراہ ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ہمیں سکولوں اور معاشرے میں خوراک اور دیگر الرجیز سے درپیش خطرات کو زیادہ سنجیدگی سے لینا چاہیئے۔
ڈاکٹر پاونکر کے الفاظ میں، ’بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جلد پر خارش ہونا یا پھر ناک کا بہنا معمولی بات ہے۔ لیکن الرجی کی یہ علامات خطرناک بھی ثابت ہو سکتی ہیں۔ لہذا، ایسا ممکن ہے کہ ایک شخص کو صرف جلد کی سوزش کی الرجی ہو لیکن وہ بڑھتی چلی جائے اور اس انسان کو کھانے سے بھی الرجی شروع ہو جائے، یا پھر مختلف دواؤں سے الرجی ہو سکتی ہے، دمہ بھی ہو سکتا ہے جو کہ شدید ہو سکتا ہے۔ عالمی سطح پر اس رجحان میں پھیلاؤ دیکھا جارہا ہے جو کہ خطرناک ہے۔‘
ڈاکٹر پاونکر کا کہنا ہے کہ ماحولیات اور روزمرہ زندگی گزارنے کے انداز الرجی کو متعدی مرض بنا رہے ہیں اور الرجی کے یہ مسائل ترقی یافتہ ممالک میں بھی بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ، ’ہمارے کھانوں میں مختلف کیمیائی مادے ہوتے ہیں جو خوراک کی ساخت پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ نتیجتاً، یہ انسانی جسم میں مختلف بیماریوں کے خلاف مدافعت کم کرتے ہیں۔ اس طرح بچے الرجی سے ہونے والی بیماریوں کا شکار بنتے ہیں۔‘
ڈاکٹر پاونکر کی تنظیم ’ورلڈ الرجی آرگنائزیشن‘ 2013ء میں خوراک سے ہونے والی الرجیز کے بارے میں آگہی پھیلانے کے لیے مختلف پروگرامز منعقد کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
نیویارک کے ماؤنٹ سنائی ہسپتال کی جانب سے کی گئی ایک نئی تحقیق کے مطابق جن بچوں کو کھانے کی کسی چیز سے الرجی ہوتی ہے ان کی ایک تہائی اکثریت کو اس کیفیت کی وجہ سے سکول میں تضحیک یا bullying کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس تحقیق میں 250 کے لگ بھگ بچے اور والدین شامل تھے۔
وہ طلبہ جو اپنے ان ساتھی طالبعلموں کو تنگ کرتے ہیں جو کسی الرجی میں مبتلا ہوتے ہیں یہ نہیں جانتے کہ ایسا کرنا ان کی جان بھی لے سکتا ہے۔ مثلاً کسی ایسے ساتھی کے لنچ میں سے (جو کسی الرجی کا شکار ہو) صرف مونگ پھلی کا ایک دانہ ہی کھانے سے وہ اپنی زندگی داؤ پر لگا سکتے ہیں۔ ان کا جسم بعض اوقات کسی مرض کے خلاف مدافعت نہیں رکھتا اور نتیجتا وہ خود بھی اسی مرض میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔ بعض اوقات حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں اور ایسے بچوں کا جسم شاک میں چلا جاتا ہے جس سے موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔
نیو یارک کے تحقیق دانوں کا کہنا ہے کہ امریکہ میں آٹھ فیصد بچوں کو خوراک کی کسی نہ کسی چیز سے الرجی ہوتی ہے۔
ڈاکٹر روبی پاونکر ٹوکیو میں ’ورلڈ الرجی آرگنائزیشن‘ کی سربراہ ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ہمیں سکولوں اور معاشرے میں خوراک اور دیگر الرجیز سے درپیش خطرات کو زیادہ سنجیدگی سے لینا چاہیئے۔
ڈاکٹر پاونکر کے الفاظ میں، ’بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جلد پر خارش ہونا یا پھر ناک کا بہنا معمولی بات ہے۔ لیکن الرجی کی یہ علامات خطرناک بھی ثابت ہو سکتی ہیں۔ لہذا، ایسا ممکن ہے کہ ایک شخص کو صرف جلد کی سوزش کی الرجی ہو لیکن وہ بڑھتی چلی جائے اور اس انسان کو کھانے سے بھی الرجی شروع ہو جائے، یا پھر مختلف دواؤں سے الرجی ہو سکتی ہے، دمہ بھی ہو سکتا ہے جو کہ شدید ہو سکتا ہے۔ عالمی سطح پر اس رجحان میں پھیلاؤ دیکھا جارہا ہے جو کہ خطرناک ہے۔‘
ڈاکٹر پاونکر کا کہنا ہے کہ ماحولیات اور روزمرہ زندگی گزارنے کے انداز الرجی کو متعدی مرض بنا رہے ہیں اور الرجی کے یہ مسائل ترقی یافتہ ممالک میں بھی بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ، ’ہمارے کھانوں میں مختلف کیمیائی مادے ہوتے ہیں جو خوراک کی ساخت پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ نتیجتاً، یہ انسانی جسم میں مختلف بیماریوں کے خلاف مدافعت کم کرتے ہیں۔ اس طرح بچے الرجی سے ہونے والی بیماریوں کا شکار بنتے ہیں۔‘
ڈاکٹر پاونکر کی تنظیم ’ورلڈ الرجی آرگنائزیشن‘ 2013ء میں خوراک سے ہونے والی الرجیز کے بارے میں آگہی پھیلانے کے لیے مختلف پروگرامز منعقد کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔