ارشاد رانجھانی قتل کیس سندھ پولیس کیلئے بدستور ایک معمہ

مقتول ارشاد رانجھانی۔ فائل فوٹو

کراچی میں سیاسی ورکر کو ڈکیت قرار دے کر مبینہ طور پر فائرنگ کر کے ہلاک کرنے کے کیس میں مقامی یونین کونسل کے چیئر مین کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ گرفتار رحیم شاہ پر الزام ہے کہ اس نے ملزم کو فائرنگ کر کے زخمی کیا اور پھر اسے ہسپتال پہنچانے کی راہ میں رکاوٹ ڈالی۔

اس واقعے پر سول سوسائٹی کی جانب سے سوشل میڈیا پر بھی سخت احتجاج کیا جارہا ہے جبکہ پولیس رپورٹ کے مطابق واقعہ ڈکیتی میں شہری کی جانب سے اپنے دفاع میں فائرنگ کے باعث پیش آیا۔

پولیس کے مطابق یہ واقعہ چھ فروری کو اس وقت پیش آیا تھا جب رحیم شاہ بینک سے رقم حاصل کرنے کے بعد شاہ لطیف ٹاؤن پہنچا جہاں اسے اسلحہ کے زور پر ملزم نے روکنے کی کوشش کی۔ رحیم شاہ کے مطابق اس نے اپنے دفاع میں اپنے لائسنس یافتہ اسلحے سے جوابی فائرنگ کرکے ملزم کو زخمی کردیا۔ ملزم کے زخمی ہونے کے بعد وہاں لوگ جمع ہو گئے اور اسے اسپتال پہنچانے کی کوشش کی لیکن رحیم شاہ نے اسے اسپتال لے جانے سے روکا جس کے بعد وہ وہیں دم توڑ گیا۔

سوشل میڈیا پر فوٹیج سامنے آنے کے بعد مختلف حلقوں کی جانب سے اس پر شدید احتجاج اور تنقید کی گئی جس پر وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے بھی واقعے کا نوٹس لیا اور کیس کی عدالتی تحقیقات کروانے کا فیصلہ کیا۔ وزیراعلی سندھ نے پولیس کو بھی معاملے کی مکمل تحقیقات کا حکم دیا تھا جس پر ایڈیشنل آئی جی کراچی ڈاکٹر امیر شیخ نے ڈی آئی جی ضلع شرقی کراچی عامر فاروقی کی سربراہی میں تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی ۔

تحقیقاتی کمیٹی نے متعلقہ سی سی ٹی وی فوٹیج، سوشل میڈیا پر چلنے والے کلپس اور لواحقین سے بات کرنے کے بعد بتایا کہ کمیٹی اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ یہ واقعہ ڈکیتی کے دوران مزاحمت ہی کا ہے۔ ڈی آئی جی ایسٹ عامر فاروقی نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ جائے وقوعہ سے ارشاد رانجھانی کے زیر استعمال اسلحہ برآمد کیا گیا ہے جبکہ اسے مردہ حالت میں اسپتال لانے والے ایمبولینس ڈرائیور کا بیان بھی ریکارڈ کرلیا گیا ہے۔ پولیس نے ملزم کامجرمانہ سرگرمیوں کا ریکارڈ بھی جاری کیا ہے۔

ارشاد رانجھانی کا مبینہ قاتل یونین کونسل چیئرمین رحیم شاہ۔ فائل فوٹو

دوسری جانب ارشاد کے اہل خانہ کے مطابق وہ صرف ایک سیاسی ورکر تھا۔ وہ حال ہی میں بیرون ملک سے وطن واپس آیا تھا۔ اس کا ڈکیتی کے واقعے سے کوئی تعلق نہیں۔ سول سوسائٹی کی جانب سے بھی واقعہ کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا نام دیا جا رہا ہے۔ واقعہ کے خلاف اتوار اور پیر کے روز بھی شہر کے مختلف علاقوں میں مظاہرے کیے گئے۔ احتجاج کرنے والوں کا کہنا ہے کہ کسی بھی شخص کو خود ساختہ عدالت لگا کر اسے قتل کرنا قانون کی حکمرانی اور ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔

اس بارے میں پولیس کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد بھی معاملہ سلجھا نہیں۔ واقعے کی بازگشت صوبائی اسمبلی میں بھی سنائی دی اور اس پر احتجاج کیا گیا جبکہ وزیراعلیٰ سندھ نے بھی واقعے میں پولیس کی کارکردگی کو غیر پیشہ ورانہ قرار دیا ہے۔ آئی جی سندھ کو لکھے گئے ایک خط میں وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ کسی کی بے گناہی کا فیصلہ صرف عدالت کر سکتی ہے۔ وزیر اعلیٰ کے مطابق پولیس نے غیر ذمہ دارانہ رویہ دکھایا اور موقع پر نہیں پہنچی جس کی وجہ سے ارشاد رانجھانی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔

انکا مزید کہنا ہے کہ یہ واقعہ پولیس کی کارکردگی میں بڑے پیمانے پر بہتری کی گنجائش کو ظاہر کرتا ہے۔ ایسے واقعات میں پولیس کی کارکردگی اس کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں پر شکوک و شبہات پیدا کرتی ہے جبکہ معاملے کو غلط طریقے سے حل کرنے سے لسانی جذبات پیدا ہونے کے خدشات ابھرے ہیں۔

کراچی میں ڈکیتی کے دوران یہ ہلاکت اب تک پولیس کے لئے معمہ بنی ہوئی ہے۔ اس شہر میں قانون کو ہاتھ میں لینے، ڈکیتی کی واردات پر مزاحمت کی بنیاد پر لوگوں کے زخمی یا قتل ہونے کے واقعات بھی نئے نہیں اور نہ ہی لسانیت کے نام پر قتل نیا ہے۔ لیکن تجزیہ کاروں کے مطابق اس واقعے کی آڑ میں اور ریاستی کمزور ی سے فائدہ اٹھا کر وہ لسانی جذبات ایک بار پھر پیدا کئے جا رہے ہیں جس کے زخم یہ شہر کئی دھائیوں سے کھاتا چلا آیا ہے۔