پشاور سے تعلق رکھنے وکیل اور پشتون تحفظ تحریک (پی ٹی ایم) کے رہنما فضل خان ایڈووکیٹ پر دو دن قبل نامعلوم افراد کی فائرنگ کے خلاف خیبر پختونخوا بار کونسل کی اپیل پر ہڑتال کی گئی۔
جمعرات کو دارالحکومت پشاور سمیت صوبے کے تمام اضلاع میں وکلا نے عدالتوں کا بائیکاٹ کیا جس کے نتیجے میں عدالتی کارروائی متاثر ہوئی۔
فضل خان ایڈووکیٹ پر منگل کی شام گھر جاتے وقت سرکلر روڈ پر ٹھنڈ خوئی کے قریب تاک میں بیٹھے نامعلوم افراد نے فائرنگ کی تھی۔ فائرنگ سے فضل خان ایڈووکیٹ معمولی زخمی ہوئے تھے۔
پشاور پولیس کے حکام کے مطابق واقعے کا مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کر دی گئی ہے مگر کوئی گرفتاری نہیں کی گئی۔
پشاور بار ایسوسی ایشن کے صدر اختر بلند خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ خیبر پختونخوا بار کونسل کی اپیل پر صوبے بھر کے وکلا عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کرکے ہڑتال کر رہے ہیں۔
اُنہوں نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے ملزمان کی گرفتاری کا بھی مطالبہ کیا۔
فضل خان ایڈووکیٹ پر حملے کے خلاف پی ٹی ایم کی اپیل پر پشاور، کوئٹہ سمیت دیگر شہروں میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے تھے۔
Your browser doesn’t support HTML5
پشاور میں مظاہرے سے ڈاکٹر سید عالم محسود اور دیگر رہنماؤں نے خطاب کیا۔ ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں ڈاکٹر سید عالم محسود کہا کہ عجیب بات ہے کہ جب بھی حکومت پی ٹی ایم کے رہنماؤں سے مذاکرات شروع کرتی ہے تو تحریک کے رہنماؤں پر قاتلانہ حملوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔
انہوں نے فضل خان ایڈووکیٹ پر فائرنگ میں ملوث افراد کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا۔
فضل خان ایڈووکیٹ پر فائرنگ سے قبل پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ نے پی ٹی ایم کے پانچ رہنماؤں کی عبوری ضمانت کی درخواستیں منظور کی تھیں جن کی قبل از گرفتاری کی درخواستیں پشاور کے ایڈیشنل سیشن جج نے نامنظور کر دی تھیں۔
جن افراد کی ضمانت منظور کی گئی تھی ان میں پشتون تحفظ تحریک کے دیگر رہنماؤں سمیت فضل خان ایڈووکیٹ بھی شامل تھے۔
فضل خان ایڈووکیٹ پشاور کے آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) پر 16 دسمبر 2014 کو ہونے والے ہلاکت خیز حملے میں ہلاک ہونے والے بچوں کے والدین کی تنظیم کے سربراہ بھی ہیں۔ وہ اس واقعے کی عدالتی تحقیقات کے لیے 2018 میں عدالت میں درخواست دائر کرنے والوں میں شامل تھے۔
سپریم کورٹ کی ہدایت پر پشاور ہائی کورٹ کے عدالتی کمیشن نے چند روز قبل تحقیقات مکمل کرکے رپورٹ چیف جسٹس کے حوالے کی ہے۔
فضل خان ایڈووکیٹ نے حالیہ دنوں میں پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے نام ایک کھلاخط بھی لکھا تھا جس میں فوج کے سیاسی اور انتظامی معاملات میں مداخلت پر تنقید کی گئی تھی۔