پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پشتون نوجوانوں کی تنظیم پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) نے حکومت کے ساتھ باضابطہ مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی ہے۔
پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین نے کہا ہے کہ ہمارے ہاں لوگ دھماکوں میں مارے جاتے ہیں لیکن انہیں ہلاک اور اسامہ بن لادن کو شہید کہا جاتا ہے۔
جمعے کو اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کے دوران پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین نے کہا کہ ملک میں دہشت گردی کے نام پر جو جنگ شروع ہوئی، اس میں بے گناہوں کو قتل کیا گیا۔ ان کے بقول ہماری امن کے علاوہ کوئی خواہش نہیں۔
انہوں نے کہا کہ نقیب اللہ محسود کے ماورائے عدالت قتل کے بعد پی ٹی ایم وجود میں آئی۔ لیکن ایسے واقعات ایس پی طاہر اور عارف وزیر کی صورت میں آج بھی جاری ہیں۔
منظور پشتین کا کہنا تھا کہ امن کے علاوہ ہماری کوئی خواہش نہیں۔ 2018 میں پشتونوں نے اسی پریس کلب کے سامنے احتجاج کیا تھا۔ اس احتجاج میں جو مذاکرات ہوئے انہیں پورا نہیں کیا گیا۔ اس کے بعد ہم نے دوبارہ احتجاج کی کال دی تو مئی 2018 میں دوبارہ مذاکرات کی دعوت دی گئی۔
'ریاست اور شہری میں کبھی مذاکرات نہیں ہوتے'
پی ٹی ایم کے سربراہ نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ ریاست اور شہری میں کبھی مذاکرات نہیں ہوتے۔ جب سینیٹ کے ساتھ ہمارے مذاکرات جاری تھے تو پی ٹی ایم پر حملہ ہوا اور ہمارے 16 لوگ مارے گئے۔ ہمارے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا اور منتخب اراکین اسمبلی کو بھی گرفتار کیا گیا۔
منظور پشتین کے بقول چند ماہ قبل پرویز خٹک نے میڈیا پر کہا تھا کہ ہم مذاکرات کرتے ہیں مگر اگلے دن اس سے انکار کر دیا گیا اور عارف وزیر کو قتل کر دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ قبائلی علاقوں میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ اس پر ہمیں انصاف تو دور، انصاف کا دلاسہ بھی نہیں دیا جا رہا۔ جو بھی اس ریاست میں ظلم کرتا ہے اسے تحفظ دیا جاتا ہے۔ چاہے وہ راؤ انوار ہو یا احسان اللہ احسان۔
منظور پشتین نے کہا کہ مذاکرات کے نام پر ہمارے ساتھ زیادتی ہوئی ہے مگر ہم پھر بھی مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ حکومت نے ہمارے اعتماد کو بہت ٹھیس پہنچائی ہے۔ حکومت سے اپیل ہے کہ پی ٹی ایم کے اعتماد کو سنجیدہ لیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم تمام مسائل کو حکومت کے سامنے تحریری صورت میں رکھیں گے۔ مذاکرات کا یہ مطلب نہیں کہ اگر کل پھر ظلم ہو گا تو ہم خاموش بیٹھے رہیں گے۔
'جس ریاست کا شہید اسامہ بن لادن ہو اس کا ماضی کیا رہا ہو گا؟'
نیوز کانفرنس میں موجود پی ٹی ایم کے رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے کہا کہ ہمارا مسئلہ طالبان ہیں۔ پی ٹی ایم امن کا مطالبہ کرتی ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ جس ریاست کا شہید اسامہ بن لادن ہو اس کی ترجیح کیا ہو گی اور ماضی کیا رہا ہو گا؟ جب تک یہ پالیسی تبدیل نہیں ہو گی، ملک میں نہ امن آ سکتا ہے نہ ہی معیشت بہتر ہو سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم حکومت کے سامنے تمام معاملات رکھیں گے۔ پھر حکومت پر ہے کہ وہ کیا کرتی ہے۔ ہم بدترین دور سے گزر رہے ہیں۔ ریاست بنیادی حقوق دینے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔
محسن داوڑ نے مزید کہا کہ احتجاج اور اظہارِ رائے سب کا بنیادی حق ہے۔ لیکن ہمارے اظہارِ رائے پر دہشت گردی کی ایف آئی آرز درج کی گئیں۔ مارشل لا ادوار میں بھی ایسے حالات نہیں ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم جو بات دو ڈھائی سال سے کہہ رہے ہیں کل اس کو وزیر اعظم نے بھی کہہ دیا۔ محسن داوڑ کے بقول اسامہ بن لادن کو شہید کہا جا رہا ہے۔ خطے اور ملک میں امن کے لیے اس پالیسی کو تبدیل کرنا ہو گا۔
خیال رہے کہ اس سے قبل وزیرِ دفاع پرویز خٹک نے پی ٹی ایم کی قیادت کو مذاکرات کی دعوت دی تھی اور کہا تھا کہ تمام حل طلب مسائل کے لیے بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔
پی ٹی ایم نے اس بارے میں اجلاس منعقد کر کے حکومتی پیشکش کا جواب دینے کا کہا تھا اور آج اس کا باضابطہ اعلان کر دیا ہے۔ یہ مذاکرات کب اور کہاں ہوں گے؟ اس حوالے سے ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔