|
کراچی -- سن 1962 میں پاکستان کے فوجی مارشل لا ایوب خان کے خلاف ملک بھر میں تحریک چل رہی تھی۔ کراچی سے اسی تحریک میں شامل ہونے کی پاداش میں نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن (این ایس ایف) نامی بائیں بازو کی طلبہ تنطیم کے 12 طلبہ رہنماؤں کو شہر بدر کر دیا گیا۔
یہ طلبہ ملتان پہنچے جن میں معراج محمد خان، علی مختار رضوی، نفیس صدیقی، فتح یاب علی خان، باقر عسکری، جوہر حسین اور دیگر شامل تھے۔
ان طلبہ رہنماؤں کو ملک کے کسی شہر میں بھی پناہ نہیں ملتی تھی اور ہر جگہ سے شہر بدری کا پروانہ مل جاتا تھا۔ ملتان سے بھی ضلعی انتظامیہ ان طلبہ رہنماؤں کو شہر سے نکالنے کی تیاریاں کر رہی تھی۔
ایسے میں ملتان کے ایک سرکاری کالج کے باہر ان طلبہ رہنماؤں کی ملاقات کرامت علی نامی ایک طالبِ علم سے ہوئی جو وہاں زیرِ تعلیم تھے۔ بعد ازاں کرامت علی نے اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر کراچی کے ان طلبہ رہنماؤں کو ملتان میں رہنے کی اجازت کے مطالبے کے لیے دھرنا دیا۔
اس واقعے کا ذکر کرامت علی کی جدوجہد پر مبنی 'راہ گزر تو دیکھو' کے نام سے ایک کتاب میں کیا گیا ہے۔
یہ کتاب جامعہ کراچی کے پاکستان اسٹڈی سینٹر کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر سید جعفر احمد نے کرامت علی کے ساتھ کیے گئے تفصیلی انٹرویوز کی بنیاد پر لکھی ہے۔
یہ کرامت علی کی پانچ دہائیوں سے زائد عرصے پر مبنی جدوجہد کی تھی جو ان کے انتقال تک جاری رہی۔ کرامت علی جمعرات کی صبح کراچی میں 78 سال کی عمر میں طویل علالت کے بعد وفات پا گئے۔
وہ پاکستان انسٹی ٹیوٹ اف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ (پائلر) نامی غیر سرکاری ادارے کے بانی اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر بھی رہے ہیں۔
کرامت علی کے بھتیجے اور پائلر کے جوائنٹ ڈائریکٹر عباس حیدر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ کرامت علی کراچی کے نجی اسپتال میں کئی روز سے زیرِ علاج تھے۔
طلبہ سیاست سے جدوجہد کا آغاز
کرامت علی قیامِ پاکستان سے دو سال قبل پنجاب کے شہر ملتان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد فاریسٹ گارڈ اور ملتان کالونی ٹیکسٹائل ملز میں مزدور تھے۔ کرامت علی نے ملتان کے کالج سے 1962 میں انٹرمیڈیٹ کیا اور ساتھ ہی ساتھ ایک فیکٹری میں مزدوری بھی کرتے تھے۔
سن 1963 میں کرامت علی اپنی بڑی بہن کے ہمراہ کراچی منتقل ہو گئے جہاں وہ ایس ایم سائنس کالج میں داخلہ لے کر طلبہ سیاست میں فعال ہوئے اور پڑھائی کے ساتھ ساتھ مقامی فیکٹری میں مزدوری کرنے کی وجہ سے مزدور تحریک کے قریب ہوئے۔
سینئر صحافی و تجزیہ کار توصیف احمد خان کرامت علی کو 1970 کے اوائل سے جانتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کرامت علی نے نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن جیسی بائیں بازو کی طلبہ تنظیم سے اپنی سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا۔
توصیف احمد کہتے ہیں کہ جب ایوب خان نے ذوالفقار علی بھٹو کو وزیرِ خارجہ کے عہدے سے فارغ کیا تو گرومندر کے علاقے میں انہوں نے دیگر طلبہ کے ساتھ مل کر ذوالفقار علی بھٹو کے اعزاز میں ایک تقریب کا اہتمام کیا۔
مزدور تحریک
باور خان 1972 میں کراچی میں چلنے والی مزدور تحریک کے ایک رہنما رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت کے نام ور مزدور رہنماؤں عثمان بلوچ، کنیز فاطمہ اور شاہ رضا خان سمیت دیگر کے ساتھ ساتھ کرامت علی بھی اس تحریک میں پیش پیش تھے۔
باور خان کے بقول "کرامت علی دیگر مزدور رہنماؤں کے ہمراہ سائٹ انڈسٹریل ایریا کی مزور بستیوں پٹھان کالونی اور فرنٹیئر کالونی میں مزدور ڈیروں میں باقاعدگی سے آتے اور اُنہیں اپنے حقوق سے متعلق آگاہی دیتے۔"
کراچی میں مزدور اُمور کے ماہر اور تجزیہ کار منان باچا کا کہنا ہے کہ متحدہ لیبر محاذ نامی 1969 میں بننے والی تنظیم کے پلیٹ فارم سے کرامت علی اپنے ساتھیوں خصوصاً عثمان بلوچ کے ہمراہ باقاعدگی سے مزودر بستیوں میں آتے تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ سلسلہ 1972 کی تحریک ختم ہونے کے بعد کئی برسوں تک چلتا رہا۔
توصیف احمد خان کہتے ہیں کہ "این ایس ایف کا حصہ ہونے کی وجہ سے کرامت علی عابد علی سید، سلام بخاری اور واحبد بشیر کے ہمراہ کمیونسٹ پارٹی کے ایک دھڑے سے وابستہ ہوئے جو 1972 کی مزدور تحریک کے کافی قریب تھی۔"
مولانا بھاشانی، غوث بخش بزنجو اور صادقین سے متاثر
'راہ گزر تو دیکھو' میں کرامت علی کہتے ہیں کہ وہ نیشنل عوامی پارٹی کے رہنما مولانا عبدالحمید بھاشانی سے شدید متاثر رہے اور وہ ان کے ہمراہ سیاسی اور احتجاجی سرگرمیوں میں کافی فعال رہے۔
بعد میں مشرقی پاکستان کے علیحدہ ہونے کے بعد جب مولانا بھاشانی جب بنگلہ دیش چلے گئے تو کرامت علی نے اپنا زیادہ تر وقت متحدہ لیبر محاذ نامی نئی مزدور تنظیم کو دینا شروع کیا جس کے رہنماؤں میں عثمان بلوچ، شاہ رضا خان اوردیگر رہنما شامل تھے۔
توصیف احمد خان کہتے ہیں کہ "بھٹو حکومت کی جانب سے 1972 کی مزور تحریک کو کچلنے کے دوران کرامت علی بھی بدنام زمانہ ڈیفنس آف پاکستان رولز کے مقدمات کے تحت کافی عرصہ جیلوں میں رہے۔ جب جیل سے نکلے تو مزدور تحریک کافی منتشر ہو گئی تھی۔"
مزدور تحریک کمزور پڑنے اور نیشنل عوامی پارٹی کی تقسیم کے نتیجے میں کرامت علی کچھ عرصے تک میر غوث بخش بزنجو کی نئی جماعت پاکستان نیشنل پارٹی میں شامل ہوئے۔
توصیف احمد خان کے بقول "کرامت علی میر غوث بخش بزنجو سے کافی متاثر تھے اور ان کی پارٹی کا حصہ ہونے یا نہ ہونے کے باوجود وہ ان کی کافی عزت کیا کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ کرامت علی کا ان کے بیٹوں بزن بزنجو اور حاصل برنجو سے بھی قریبی تعلق رہا۔"
کرامت علی صادقین کے بھی کافی قریب رہے۔ کرامت علی کہتے ہیں کہ "وسیع مطالعے کے حامل صادقین سے اُنہیں تاریخ، مارکس ازم اور روس کے کمیونسٹ انقلاب سمیت مختلف موضوعات پر سیکھنے کا موقع ملا۔"
پائلر کی تشکیل
توصیف احمد خان کہتے ہیں کہ کرامت علی نے 1976 میں ان کے ہمراہ جامعہ کراچی میں شعبہ فلسفہ میں داخلہ لیا مگر اگلے سال پڑھنے کے لیے ہالینڈ چلے گئے جہاں سے واپسی پر انہوں نے پائلر نامی ادارے کی بنیاد رکھی۔
ان کے بقول "پائلر کی تشکیل میں نبی احمد، عثمان بلوچ اور دیگر مزورر رہنماؤں نے کرامت علی کی معاونت کی۔"
کتاب میں کرامت علی کہتے ہیں کہ "پائلر بنانے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ لیبر موومنٹ کو معاشرے میں بنیادی تبدیلی کے کام میں شامل کیا جائے اور ایک ایسا معاشرہ قائم ہو جہاں محنت کرنے والوں کو اپنی محنت کا صلہ ملے۔"
ان کا کہنا تھا کہ پائلر بنانے کا خیال امریکہ میں انسٹی ٹیوٹ آف لیبر اینڈ ریسرچ کو دیکھ کر آیا تھا۔
کرامت علی اور ان کے ادارے پائلر نے پاکستان اور بھارت میں قیام امن کے لیے بھی کافی جدوجہد کی اور اس حوالے سے پاکستان انڈیا پیپلز فورم فار پیس اینڈ ڈیموکریسی، پاکستان پیس کولیشن اور ساؤتھ ایشیا لیبر فورم جیسے جنوبی ایشیا اور ملکی سطح پر متعدد اتحادوں کے بانی بھی رہے۔