القاعدہ کے رہنماء اسامہ بن لادن کی پیر کو طلوع آفتا ب سے قبل ایبٹ آباد میں امریکی اسپیشل فورسز کے ایک آپریشن میں ہلاکت اوراس بارے میں حکومت پاکستان کے بیانات سے اراکین پارلیمنٹ مطمئن دکھائی نہیں دیتے اور وہ مطالبہ کر رہے کہ سویلین قیادت اس بارے میں قوم کو اعتماد میں لے۔
ایوان بالا یعنی سینیٹ میں مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تعاون کے حوالے سے پاکستانی اداروں کو مزید سوالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
حکمران اتحاد میں شامل عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر زاہد خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ”اسامہ بن لادن ایبٹ آباد میں رہ رہا تھا اور ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں کو پتہ نہیں چلا تو یہ ہمارے لیے ایک بدنما داغ ہے ۔ اگر ہماری فورس کو پتہ لگے بغیر وہ آپریشن کر کے چلے گئے تو یہ ہمارے لیے بہت بدنامی کا سبب بنے گا۔ یہ بھی ہمارے لیے بدنامی کا سبب ہے کہ اُسامہ بن لادن ایک ایسی جگہ میں رہتا ہے جہاں فوج کی اکیڈمی ہے اور ہمیں پتہ نہیں لگا“۔
اُنھوں نے کہا کہ پاکستان سے القاعدہ کے اب تک جتنے لوگ گرفتار ہوئے ہیں اُنھیں ملک کے شہری علا قوں سے پکڑا گیا ہے۔ ”کبھی قبائلی علاقے سے اُن کا (القاعدہ) کوئی بڑا کمانڈر نہیں پکڑا گیا ہے “۔
قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹر صالح شاہ کا کہنا ہے کہ پاکستانی علاقے میں امریکی فورسز کے آپریشن سے اُن کے بقول ملک کو درپیش سلامتی کے خطرات مزید بڑھ گئے ہیں۔ ”بہت افسوس کی بات ہے کہ ایک دوسر املک (امریکہ) پاکستان میں داخل ہو کر آپریشن کرے۔ ملک کو درپیش سلامتی کے خطرات مزید بڑھ گئے ہیں اور ہم مایوسی کا شکا ر ہیں ۔ ہمارے حکام کو اب تک یہ پتہ نہیں ہے اُس کی(اسامہ بن لادن) لاش کہا ں ہے ۔ پہلے تو ہمیں اعتماد تھا کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام محفوظ ہے لیکن جب بات یہاں تک پہنچ گئی ہے اور ہمارے اس بارے میں تحفظا ت ہیں۔ اگر امریکہ ایبٹ آباد میں آکر آپریشن کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہماری فوج بے بس ہے“۔
بلوچستان کی نیشنل پارٹی کے سینیٹر حاصل بزنجو نے سینیٹ کے اجلاس میں کہا کہ اُنھیں اس بات پر تشویش ہے کہ صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے ابھی تک قوم کو اعتماد میں نہیں لیا۔ ” پوری دنیا یہ الزام لگا رہی ہے کہ اسامہ بن لادن پاکستانی حکومت کے پاس تھا۔ سب سے پہلے وزیر اعظم یا صدر قوم سے خطاب کرتے کہ حقیقت کیا ہے مگر افسوس کہ کابینہ میں اضافہ اُن کے لیے اس سے زیادہ اہم تھا۔ اس معاملے پر صدر خاموش ہے، آپ کا وزیر اعظم خاموش ہے، آپ کا فوج کا شعبہ تعلقات عامہ خاموش ہے۔ میر ے خیال میں یہ معاملہ اب یہاں پر نہیں رکے گا بلکہ یہ الزامات لگیں گے کہ افغانستان سے جو دہشت گرد فرار ہوئے ہیں وہ بھی آپ کے (پاکستان کے) شہری علاقوں میں بیٹھے ہیں۔ یہ الزام بھی لگے گا کہ حقانی کا نیٹ ورک بھی اسلام آباد میں ہے“۔
لیکن وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان نے ان تمام خدشات کو ردکرتے ہوئے کہا کہ صدر اوباما نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اسامہ بن لادن کی پناہ گاہ تک پہنچنے میں پاکستان کی انٹیلی جنس معلومات امریکہ کو حاصل رہیں۔ ”ہماری انٹیلی جنس معلومات کی وجہ سے اسامہ بن لادن کے پیغام رساں تک پہنچا گیا۔ امریکہ میں پاکستان کے حق اور اس کے خلاف لوگ موجود ہیں لیکن ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ صدر اوباما یا امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن کیا کہہ رہی ہیں“۔