پاکستان کے شہر لاہور کے حلقہ این اے 133 میں اتوار کو ہونے والے ضمنی الیکشن میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی اُمیدوار کامیاب ہوئی ہیں۔ تاہم پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے اُمیدوار نے بھی 30 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کر کے سب کو حیران کر دیا ہے۔
سن 2008 کے عام انتخابات کے بعد پنجاب بالخصوص لاہور میں پیپلزپارٹی کا ووٹ بینک مسلسل کم ہو رہا تھا جس کی وجہ پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے ایک سیاسی قوت کے طور پر اُبھرنے سمیت دیگر عوامل تھے۔
پانچ دسمبر کو ہونے والے ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ (ن) کی اُمیدوار شائستہ پرویز ملک نے 46 ہزار 811 ووٹ حاصل کیے جب کہ اُن کے مدِمقابل پیپلزپارٹی کے اُمیدوار اسلم گل نے 32 ہزار 313 ووٹ حاصل کیے۔
سن 2013 اور 2018 کے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی کے اُمیدواروں کو لاہور کے حلقوں سے محض چند سو یا چند ہزار ووٹ ہی ملتے رہے ہیں۔ تاہم اس ضمنی الیکشن میں پیپلزپارٹی کے اُمیدوار نے اتنے ووٹ لے کر سب کو حیران کیا ہے۔
ضمنی الیکشن میں شکست کے باوجود پیپلزپارٹی اس الیکشن کے نتائج پر خوشی کا اظہار کر رہی ہے۔
چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے بھی ضمنی الیکشن کے نتائج کو حوصلہ افزا قرار دیتے ہوئے اسے پیپلزپارٹی کے جیالوں کی بڑی کامیابی قرار دیا ہے۔
ایک بیان میں بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ عام انتخابات سے تقریباً چھ گنا زیادہ ووٹ لے کر پاکستان پیپلزپارٹی پنجاب نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ صوبے کی حقیقی نمائندہ ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف کا اُمیدوار میدان میں نہ ہونے سے پیپلزپارٹی نے فائدہ اُٹھایا اور حلقے میں بھرپور محنت کی۔ تاہم یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ پارٹی پنجاب میں دوبارہ مضبوط ہو رہی ہے۔
پیپلزپارٹی کو اتنے ووٹ کیسے مل گئے؟
سینئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ اس الیکشن میں تحریکِ انصاف کے اُمیدوار کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد ہونے سے حلقے میں ایک خلا پیدا ہوا جو پیپلزپارٹی نے بھرپور انتخابی مہم چلا کر پورا کرنے کی کوشش کی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اس ضمنی الیکشن کے نتائج سے یہ اخذ نہیں کرنا چاہیے کہ پیپلزپارٹی نے اب تحریکِ انصاف کی جگہ لے لی ہے۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار سلیم بخاری کہتے ہیں کہ نواز شریف مخالف ووٹ پیپلزپارٹی کو ملا ہے جس میں تحریکِ انصاف، پاکستان عوامی تحریک، تحریک لبیک اور دیگر جماعتوں کا ووٹ بینک بھی شامل ہے۔
اُن کے بقول پیپلزپارٹی نے بھی اس الیکشن میں خوب جان ماری ہے۔ آصف علی زرداری گزشتہ 15 روز سے لاہور میں بیٹھے ہوئے ہیں اور ان کا مقصد یہی ہے کہ پنجاب میں پارٹی کو دوبارہ مضبوط کیا جائے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سلیم بخاری کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی جتنی مرتبہ بھی اقتدار میں آئی ہے وہ پنجاب سے کامیاب ہوتی رہی ہے۔ لہٰذا پیپلزپارٹی کی قیادت کو یہ ادراک ہے کہ اگر اقتدار میں آنا ہے تو پنجاب میں پارٹی کو منظم کرنا ہو گا۔
سلیم بخاری کے بقول 2018 کے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی کے اسی اُمیدوار کو لگ بھگ پانچ ہزار ووٹ ملے تھے۔ البتہ اب وہ 32 ہزار ووٹ لینے میں کامیاب ہوئے ہیں جو بلاشبہ ایک بڑی کامیابی ہے۔
سینئر تجزیہ کار راشد رحمان کہتے ہیں کہ اُنہیں نہیں لگتا کہ آئندہ انتخابات میں تین جماعتوں کے درمیان مقابلہ ہو گا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب پیپلزپارٹی کا بیانیہ بائیں بازو کی ایک بڑی جماعت کا تھا تو پنجاب میں اس کی جڑیں مضبوط تھیں، لیکن پارٹی نے سوائے زبانی جمع خرچ کے اس بیانیے کو آگے نہیں بڑھایا، یہی وجہ ہے کہ پارٹی پنجاب میں کمزور ہوئی۔
راشد رحمان سمجھتے ہیں کہ آئندہ انتخابات میں پنجاب سے مسلم لیگ (ن) کے جیتنے کے امکانات زیادہ ہیں جب کہ پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت اپنی کارکردگی کی وجہ سے اپنی مقبولیت کھو رہی ہے اور پیپلزپارٹی کے لیے بھی صورت حال کچھ زیادہ تبدیل نہیں ہو گی۔
کیا الیکشن میں پیسہ چلا؟
حلقے میں ووٹ خریدنے کے الزامات پر تبصرہ کرتے ہوئے سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ یہ کہنا مناسب نہیں ہو گا کہ صرف پیسے کی بنیاد پر پیپلزپارٹی اتنے ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔
اُن کا کہنا تھا کہ 30 ہزار سے زائد ووٹ ایسے ہی نہیں مل جاتے، ظاہر ہے اس میں پیپلزپارٹی کی کوشش بھی شامل ہے اور دوسرا اہم سبب تحریکِ انصاف کا اس الیکشن میں شامل نہ ہونا ہے۔
سلیم بخاری سمجھتے ہیں کہ پیپلزپارٹی نے اس حلقے میں بھرپور انتخابی مہم چلائی۔
اُن کے بقول سابق وزیرِ اعظم راجہ پرویز اشرف، یوسف رضا گیلانی، قمر زمان کائرہ، چوہدری منظور سمیت دیگر سیاسی رہنماؤں نے حلقے میں جلسے کیے اور ووٹرز کو منظم کیا، تو بہر حال اس کا پھل اُنہیں اتنے ووٹوں کی صورت میں ملا ہے۔
سہیل وڑائچ کے مطابق اس میں کوئی شک نہیں کہ پیپلزپارٹی کا ووٹ بینک پنجاب میں کم ہوا ہے۔ لیکن ایک نظریاتی جماعت کے طور پر اس کی بنیادیں اب بھی صوبے میں موجود ہیں اور بلاول کا شمار پنجاب میں مقبول سیاسی رہنماؤں کے طور پر ہوتا ہے۔
ان کے بقول پیپلزپارٹی کے سینئر رہنماؤں اعتزاز احسن، رضا ربانی اور خورشید شاہ کو جمہوریت پسند لوگ عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ لہٰذا پیپلزپارٹی کی اہمیت کم نہیں ہوئی۔
اُن کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی کا ووٹ بینک اس لیے کم ہوا کیوں کہ پنجاب میں لوگ صرف دو اُمیدواروں کو زیادہ ووٹ دیتے ہیں، ایک وہ جس کے جیتنے کا امکان ہو اور دوسرا وہ جو مخالف اُمیدوار کو ہرانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
سلیم بخاری کہتے ہیں کہ بادی النظر میں دیکھا جائے تو اس ضمنی الیکشن کے نتائج سے پیپلزپارٹی کے پنجاب میں دوبارہ منظم ہونے کے اشارے ملتے ہیں اور اگر پارٹی قیادت نے مزید محنت کی تو آئندہ الیکشن میں پیپلزپارٹی اچھے نتائج دے سکتی ہے۔
آئندہ الیکشن میں اب تین اُمیدواروں کے درمیان مقابلے کے سوال پر سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ اُنہیں ایسا نہیں لگتا کیوں کہ تحریکِ انصاف کے اُمیدوار کی موجودگی میں پیپلزپارٹی کے اُمیدوار کے لیے شاید دوبارہ اتنے ووٹ لینا ممکن نہ ہو۔ البتہ ان کے بقول پیپلزپارٹی ایک نظریاتی جماعت ہے اسے کوشش کرنی چاہیے تاکہ مقابلے کی فضا رہے۔
انہوں نے کہا کہ آئندہ الیکشن میں مسلم لیگ (ن) اور تحریکِ انصاف کے درمیان ہی مقابلہ ہو گا، تاہم کچھ حلقوں میں ہو سکتا ہے کہ پیپلزپارٹی کا اُمیدوار اہمیت اختیار کر جائے۔
کیا پیپلزپارٹی کا زیادہ ووٹ لینا حیران کن ہے؟
سلیم بخاری کہتے ہیں کہ پنجاب میں ایک تاثر بنا ہوا ہے کہ پنجاب مسلم لیگ (ن) کا گڑھ ہے اور اس کو ختم کرنے کے لیے ماضی میں بہت کوششیں ہوئیں۔ 2002 کے انتخابات میں بھی یہ کوششیں ہوئیں اور پھر گزشتہ انتخابات میں بھی لیکن لیکن مسلم لیگ (ن) اب بھی پنجاب کی بڑی جماعت ہے۔
اُن کے بقول اسی بنیاد پر یہ اُمید نہیں رکھنی چاہیے کہ آئندہ الیکشن میں پنجاب سے پیپلزپارٹی مسلم لیگ (ن) کو زیادہ ٹف ٹائم دے سکے گی۔
سینئر تجزیہ کار راشد رحمان کہتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کا این اے 133 میں زیادہ ووٹ لینا حیران کن ہے کیوں کہ کئی سال ہو گئے ہیں پنجاب میں پیپلزپارٹی نہ ہونے کے برابر ہے۔
اُن کے بقول الیکشن نتائج پر نظر دوڑائیں تو ایک لحاظ سے پنجاب سے اُن کا صفایا ہو گیا ہے۔ لہٰذا اس الیکشن کے نتائج اُن کے لیے حوصلہ افزا تو ضرور ہوں گے، لیکن پیپلزپارٹی کا پنجاب میں دوبارہ احیا ہوا ہے، یہ خوش فہمی ہے۔
راشد رحمان کے مطابق پیپلزپارٹی کے پاس کوئی ایسا پروگرام نہیں ہے جس کے ذریعے وہ مسلم لیگ (ن) کو ہلا سکے۔ کیوں کہ مسلم لیگ (ن) کا ووٹ بینک اپنی جگہ برقرار ہے۔