'ہم لوگوں نے بڑی بہادری سے کل کالے کوٹ والوں کو مزا چکھایا اور اگر آج وکلا یہ غلطی دوبارہ کرتے ہیں تو آج کل سے بھی زیادہ برا جواب دیا جائے گا۔ اب ہمارے ساتھ میڈیا بھی ہے اور پولیس بھی۔ لوگوں نے بھی دیکھا لیا ہے کہ کیسے کالے کوٹ والوں نے اسپتال میں زیر علاج مریضوں پر تشدد کیا اور اسپتال کی ایمرجنسی میں گھس کر ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کو زد و کوب کیا'۔
آپریشن تھیٹر کے کالے گاؤن میں ملبوس یہ الفاظ ہیں پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی (پی آئی سی) کے ایک سینئر ڈاکٹر، ذیشان کے، جو پی آئی سی کے استقبالیے کے پاس ڈاکٹروں، پیرا میڈیکل اسٹاف اور انتظامیہ کے لوگوں سے خطاب کر رہے تھے۔
Your browser doesn’t support HTML5
گزشتہ روز پی آئی سی میں ہونے والے واقع کے بعد میڈیا کے اسپتال میں داخلے پر آج پابندی تھی۔ تاہم، اسپتال میں زیر علاج مریضوں کے لواحقین اندر جا سکتے تھے۔
پولیس والوں اور سیکیورٹی محافظوں کی نظروں سے بچ کر مریض کے تیمار دار کے طور پر جب اندر پہنچنے میں کامیاب ہوا تو اندر کا منظر اسپتال کم اور کسی فیکٹری کا احاطہ زیادہ لگ رہا تھا، جہاں کالے رنگ کے گاؤن والا ایک ڈاکٹر، ڈاکٹروں، پیرا میڈیکل اسٹاف، خاکروبوں اور اسپتال کے دیگر عملے سے جوشیلا خطاب کر رہے تھے۔
اس خطاب سے پہلے ڈاکٹروں کی جانب سے وہاں موجود لوگوں کو انتہائی سختی سے خبردار کیا گیا کہ اگر کوئی ویڈیو بنائے گا تو اس کا موبائل چھین لیا جائے گا۔
خطاب سننے والوں میں شامل اسپتال کے عملے نے مریضوں کو لگائی جانے والی ڈرپس کے اسٹینڈ، لوہے کے راڈ والے موپس اور مختلف اقسام کے ڈنڈے پکڑے ہوئے تھے۔
کالے گاؤن والے ڈاکٹر، ماہر قلب کم اور ٹریڈ یونین لیڈر زیادہ لگ رہے تھے، جو گزشتہ روز ہونے والے واقع پر اسپتال کے عملے کو شاباش دے رہے تھے اور انہیں خبردار کر رہے تھے کہ انہیں اطلاعات مل رہی ہیں کہ آج پھر وکلا بدلہ لینے کے لئے پی آئی سی پر حملہ کر سکتے ہیں۔
کالے گاؤن والے ڈاکٹر، ماہر قلب کم اور ٹریڈ یونین لیڈر زیادہ لگ رہے تھے
عملے کو خبردار کرنے پر عملے کی طرف سے وکلا کے خلاف نعرے بازی کی جاتی اور کالی وردی والے ڈاکٹر صاحب ان کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے کہتے کہ اگر آج بھی وکلا نے حملہ کرنے کی جرات کی تو آج ہم ان کا حال کل سے بھی برا کریں گے۔
جوشیلی تقریروں اور وکلا کے ممکنہ حملے سے متعلق حکمت عملی کے اعلان کے بعد اسپتال کے عملے اور ڈاکٹروں نے اپنا مقام تبدیل کیا اور مریضوں کے لواحقین کے لیے مختص ویٹنگ ایریا میں تقریروں اور نعرے بازی کا سلسلہ شروع ہوگیا، جس میں اسپتال میں زیر علاج مریضوں کے لواحقین بھی شریک ہوگئے۔
اس سارے ہلے گلے سے ہٹ کر کھڑے پی آئی سی کے چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر ثاقب شفیع یہ سب کچھ خاموشی سے دیکھ رہے تھے۔ جب ہم نے ان سے پوچھا کہ کیا وکلا آج پھر پی آئی سی پر حملہ کر رہے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ انہیں ایسا کچھ نہیں پتا۔ لیکن، ڈاکٹرز کو ایسے پیغامات مل رہے ہیں کہ وکلا اپنے گرفتار ساتھیوں کو چھڑوانے کے لیے دوبارہ حملے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔
واقع کے بعد اسپتال سے ڈسچارج کیے جانے والے مریضوں کے بارے میں ڈاکٹر ثاقب شفیع کا کہنا تھا کہ جن مریضوں کی حالت انتہائی سیریس تھی یا جن کے کل ہی دل کے آپریشن ہوئے تھے۔ وہ ابھی بھی اسپتال میں زیر علاج ہیں، جن کی تعداد لگ بھگ 70 کے قریب ہے۔
ڈاکٹر ثاقب کا مزید کہنا تھا کہ اصل مسئلہ یہ نہیں کہ اسپتال کب تک دوبارہ کھل جائے گا۔ بلکہ، اصل مسئلہ یہ ہے کہ ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل اسٹاف خوفزدہ ہیں اور کام کرنے سے انکاری ہیں۔ تاہم، ان کا کہنا تھا کہ جو مریض اس وقت زیر علاج ہیں، ان کا ٹھیک طرح سے علاج کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ روز ہونے والے واقعے کے بعد پی آئی سی کے وارڈ خالی پڑے تھے اور بستروں کے ساتھ لگی دل کی دھڑکن اور ای سی جی کرنے والی مشینیں خاموش تھیں۔ ایمرجنسی سمیت، آپریشن تھیٹر اور سی سی یو کے دروازوں پر تالے لگے تھے۔
خواتین سیکیورٹی گارڈ اور نرسیں گزشتہ روز ہونے والے واقع سے انتہائی خوفزدہ تھیں
اس ساری صورتحال میں خواتین سیکیورٹی گارڈ اور نرسیں گزشتہ روز ہونے والے واقع سے انتہائی خوفزدہ تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جو مریض کل یہاں سے اپنی جانیں بچانے کے لیے بھاگ گئے تھے۔ وہ آج صبح واپس تو آئے، لیکن اسپتال کی انتظامیہ نے انہیں دوبارہ داخل نہیں کیا۔
پی آئی سی کے استقبالیہ پر جہاں مریضوں سے متعلق پوچھنے والوں کی قطاریں لگی ہوتی تھیں، اس کے بالکل سامنے میڈیا نے وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کی آمد اور ان کے میڈیا سے خطاب کے لیے کیمرے سیٹ کیے ہوئے تھے، تاکہ وزیر اعلیٰ میڈیا سے خطاب کے لیے اس استقبالیے کو بطور روسٹرم استعمال کر سکیں۔
وزیر اعلی پنجاب کے متوقع دورے سے پہلے وارڈز کی سراغ رساں کتوں کے ذریعے سیکیورٹی کلیئرنس کی گئی اور میڈیکل وارڈز میں خالی پڑے بستروں اور ان کے ساتھ لگی مشینوں کو بذریعہ سیکیورٹی مشینز کلیئر قرار دیا گیا۔
دل کے امراض میں مبتلا مریضوں کے لیے بنائے گئے ان وارڈز میں آج میڈیا کے نمائندوں کا ڈیرہ تھا، جنھیں وزیر اعلی کی آمد سے قبل اسپتال میں داخلے کی اجازت دی گئی تھی۔
میڈیا والے خالی بستروں اور خاموش مشینوں کے ساتھ اپنے پروگراموں کی ریکارڈنگ کر رہے تھے، جبکہ کچھ میڈیا کے نمائندے وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتظار میں اسپتال کے ٹوٹے شیشوں اور دروازوں کے سامنے کھڑے ہو کر تصویریں کھچواتے رہے۔
اسپتال کے احاطے میں اور بیرونی دیواروں سے باہر پولیس چاق و چوبند کسی بھی خطرناک صورتحال سے نبٹنے کے لیے تیار تھی، جو کہ گزشتہ روز اپنی گاڑی بھی وکلا سے نہ بچا سکی۔
لاہور کا یہ اسپتال ایسا ہے کہ جہاں مریضوں کو کئی ماہ بعد کی اپوائنٹ منٹ ملتی تھی اور اس کے ہر بیڈ پر مریض زیر علاج ہوتا تھا۔ لیکن، آج اسپتال کے اکثریتی بستر خالی پڑے ہیں۔ لیکن، ان پر آج کوئی بھی ایسا مریض نہیں لیٹا، جسے ڈرپ لگی ہو اور اس کے دل کی دھڑکن کی ریڈنگ مشین پر آ رہی ہو۔
آج پی آئی سی میں وہ لواحقین بھی ملے جنہیں کئی ماہ پہلے ان کے مریضوں کے دل کے آپریشن کے لیے آج کی تاریخ دی گئی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں تو پہلے ہی بہت مشکلوں سے ڈاکٹروں سے آپریشن کا ٹائم ملا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں نہیں پتا کہ اسپتال پر حملہ کرنے والے وکیلوں کو حکومت سزا دے گی یا نہیں۔ لیکن، انہیں بس اس بات کی فکر ہے کہ آپریشن کے لیے اگلی تاریخ تک ان کا مریض انتظار کرلے۔