پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں وکلا اور ڈاکٹروں کے درمیان تنازعہ کے بعد طبی عملے کی حفاظت کا معاملہ ایک بار پھر زیر بحث ہے جہاں طبی عملے کے ساتھ ساتھ اسپتال میں موجود دیگر مریضوں کو بھی نقصان پہنچا ہے، اس واقعہ میں بعض مریضوں کی ہلاکت کی بھی اطلاعات ہیں۔
انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس کے ایک سروے کے مطابق، ملک کے 16 اضلاع میں گذشتہ 6 ماہ کے دوران 4200 افراد کے طبی عملے میں سے 49.2 فیصد افراد کو کیے گئے جائزے کے دوران زبانی یا جسمانی بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑا۔
33.9 فیصد کو زبانی اور 6.6 فیصد کو جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑا، جبکہ بعض واقعات میں اسلحے کا استعمال بھی کیا گیا۔
جس طبی عملے پر سب سے زیادہ حملے کیے گئے ان میں 57 فیصد اسپتالوں کے گارڈ، 43.6 فیصد نرسیں، 42 فیصد میڈیکل افسر شامل ہیں، جبکہ فیلڈ ورکرز میں 41.4 فیصد ایمبولینس آپریٹر، 36.7 فیصد ویکیسن کرنے والے اور 33.2 فیصد لیڈی ہیلتھ ورکر شامل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق، ان حملوں کی وجہ سے جو لوگ متاثر ہوئے ہیں ان میں دو تہائی عملہ ایسی صورتحال کے بعد بہت زیادہ پریشان اور ناراض رہنے لگے، آدھے سے زائد سٹریس کا شکار رہے، آدھے سے زائد متاثرین خوفزدہ اور آئندہ کے لیے ایسے واقعات کے لیے پریشان نظر آئے۔ ایک تہائی اپنے پیشے سے مایوس اور ناامید رہے جبکہ ہر پانچ میں سے ایک نے اس صورتحال کے پیش نظر ملک چھوڑنے پر غور شروع کر دیا۔
آئی سی آر سی پاکستان طبی عملہ کی حفاظت کے حوالے سے ایک پراجیکٹ پر کام کر رہی ہے، جس میں ملک بھر میں طبی عملے کی حفاظت کو یقینی بنانے کے حوالے سے کام کیا جا رہا ہے؛ اور یہ سروے اسی حوالے سے تھا۔
آئی سی آر سی کا کہنا ہے کہ تشدد کی بڑی وجہ لواحقین کی طرف سے مریض کی حالت، فراہم کی جانے والی سروس کا کم معیار ہونا اور طبی عملے کی تاخیر بتایا جاتا ہے۔
بہت سے معاملات میں ایمبولینس کے عملہ کو نشانہ بنایا گیا اور اس کی بڑی وجہ ان کا تاخیر سے پہنچنا بتایا گیا۔ بعض کیسز میں لواحقین کا شکوہ تھا کہ ان کے مریض کو بروقت دیکھا نہیں جا رہا۔ ان لوگوں نے دیگر مریضوں پر اپنے مریض کو ترجیح نہ دینے کی وجہ بتائی اور طبی عملے پر حملہ کر دیا۔
آئی سی آر سی پاکستان کی دریگانہ کوجک کہتی ہیں کہ جب کسی اسپتال پر حملہ ہوتا ہے یا صحت کی دیکھ بھال کرنے والے عملے کو ہراساں کیا جاتا ہے تو اس کے نتیجے میں ممکن ہے کہ ایک ماں اور اس کی اولاد کو جنہیں فوری مدد کی ضرورت ہو، ہو سکتا ہے کہ ان تک امداد نہ پہنچ سکے، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ صحت کی دیکھ بھال کرنے والے عملے کو نفسیاتی طور پر شدید صدمہ پہنچے اور وہ مدد فراہم نہ کرسکیں۔
آئی سی آرسی کے ہیلتھ کئیر ان ڈینجر انشیٹیو کے سربراہ ڈاکٹر میرویس خان اس رپورٹ کے حوالے سے کہتے ہیں کہ آئی سی آر سی نے یہ تیسرا سروے کیا ہے جس میں صحت کے عملہ پر تشدد کے بارے میں آگاہی حاصل ہوئی ہے۔ ہم اس معاملے کو جتنا زیادہ دیکھتے ہیں ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ صحت فراہم کرنے والے عملہ کی حفاظت کو یقینی بنانا ازحد ضروری ہے اور اس حوالے سے باقاعدہ نظام وضع کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ ایسے واقعات کو کم سے کم کیا جا سکے۔
طبی عملے میں صرف اسپتال کا سٹاف نہیں بلکہ ویکسین فراہم کرنے والی لیڈی ہیلتھ ورکرز اور بعض اساتذہ بھی شامل ہیں جنہیں اکثر دیہی علاقوں میں بہت برے سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ویکیسن کے حوالے سے مختلف مفروضوں کی بنیاد پر لوگ اپنے بچوں کو پولیو ویکیسن دلوانے سے انکار کر دیتے ہیں اور طبی عملے کی طرف سے ویکیسن کی وکالت پر انہیں سنگین خطرات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جبکہ بعض واقعات میں انہیں سیکیورٹی خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان پر حملے بھی ہوئے جن میں بعض لیڈی ہیلتھ ورکرز کو جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑے۔
ان حملوں کی ایک بڑی وجہ اسپتالوں میں مطلوبہ سہولیات کا نہ ہونا بھی ہے۔
اکثر مریضوں کے ساتھ موجود لواحقین کو معمولی سامان لانے کے لیے بھجوا دیا جاتا ہے جس کے بعد مریض کی حالت میں بہتری نہ ہونے پر لواحقین اکثر طبی عملے کے خلاف ہی پرتشدد ہوجاتے ہیں۔ اسپتالوں میں مختلف ٹیسٹوں کی سہولیات نہ ہونا بھی لواحقین کو اشتعال دلانے کا باعث بنتی ہیں۔
آئی سی آر سی کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے باقاعدہ آگاہی مہم چلانے کی ضرورت ہے کہ ڈاکٹرز یا دیگر طبی عملہ مریض کی زندگی کی ضمانت ہے اور انہیں مدد فراہم کرنے کے لیے ہے، اسپتالوں میں اپنی باری پر علاج کروانے اور تحمل سے کسی بھی صورتحال میں طبی عملے کے ساتھ تعاون سے ہی مریض کی دیکھ بھال ہو سکتی ہے۔ یہ آگاہی مہم کامیاب بنانے کے لیے تمام شعبہ ہائے زندگی کو مل کر کام کرنا ہوگا۔
لاہور میں ہونے والا واقعہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔ ماضی میں بھی اسپتال کے عملہ پر تشدد سمیت کئی واقعات پیش آچکے ہیں۔ اسپتال کے عملہ کا صرف وکلا سے نہیں بلکہ صحافیوں سے بھی تنازعہ رہ چکا ہے جس کے بعد صحافیوں کے اسپتالوں میں داخلہ پر پابندی عائد کی جاچکی ہے۔
آئی سی آر سی کا کہنا ہے کہ ان واقعات کے تدارک کے لیے حکومت کو واضح پالیسی ترتیب دینا ہوگی جس میں مریضوں کی شکایات دور کرنے کے ساتھ ساتھ طبی عملے کی شکایات دور کرنے کی منصوبہ بندی بھی کرنا ہوگی۔