لاہور ہائی کورٹ نے آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف شہباز شریف کی درخواست ضمانت منظور کر لی ہے۔
بدھ کو جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر اور جسٹس اسجد جاوید گھرال پر مشتمل دو رُکنی بینچ نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد 50، 50 لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض شہباز شریف کی ضمانت منظور کر لی۔
قومی احتساب بیورو (نیب) نے گزشتہ برس ستمبر میں منی لانڈرنگ اور آمدن سے زائد اثاثہ جات کے الزام میں شہباز شریف کو گرفتار کیا تھا۔
شہباز شریف کی ضمانت منظور ہونے پر مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا۔ اُنہیں سات ماہ جیل میں رکھنے کے باوجود نیب اُن پر کوئی الزام ثابت نہیں کر سکا۔
شہباز شریف کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے عدالت میں دلائل دیے کہ نیب سات ماہ گزر جانے کے باوجود ان کے موکل کے خلاف کوئی ثبوت سامنے نہیں لا سکا جب کہ ٹرائل بھی تاخیر کا شکار ہے۔
اُنہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ شہباز شریف کو آشیانہ اور رمضان شوگر مل کیس میں بھی ضمانت مل چکی ہے جب کہ ان کے موکل کو نیب نے جب بھی بلایا وہ پیش ہوتے رہے ہیں۔
SEE ALSO: پاکستان میں شوگر انڈسٹری پر 'گٹھ جوڑ' اور 'سٹے بازی' کے الزامات، معاملہ ہے کیا؟نیب کے وکیل نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ حالیہ برسوں کے دوران شہباز شریف کے اثاثوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے جب کہ وہ دورانِ تفتیش کئی سوالات کے جواب بھی نہیں دے سکے۔
فریقین کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے منگل کو محفوظ کیا جانے والا فیصلہ سناتے ہوئے شہباز شریف کی درخواست ضمانت منظور کر لی ہے۔
نیب کا عدالت میں مؤقف
دورانِ سماعت نیب کے وکیل اسپیشل پراسیکوٹر سید فیصل رضا بخاری نے دلائل دیے کہ شہباز شریف کے داماد ہارون یوسف اُن کے اکاونٹس کو آپریٹ کرتے رہے ہیں۔ نیب کے وکیل کے مطابق وزیرِ اعلٰی سیکریٹریٹ کے ملازمین کے اکاؤنٹس میں پیسے آتے رہے ہیں۔
سید فیصل رضا بخاری کا کہنا تھا کہ ان سب کا تعلق کہیں نہ کہیں شہباز شریف سے تھا۔ اُنہوں نے عدالت سے کہا کہ مرکزی ملزم شہباز شریف ہیں۔ سب بے نامیوں کو نوٹس دیے لیکن انہوں نے ذرائع آمدن نہیں بتائے۔ فیصل رضا بخاری نے عدالت کو بتایا کہ شہباز شریف کو رمضان شوگر مل وراثت میں ملی ہے۔ اِس کے علاوہ ان کا کوئی ذریعہ آمدن نہیں ہے۔
نیب اسپیشل پراسیکیوٹرز نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ شہباز شریف کے جو بھی اثاثے ہیں وہ بیرونِ ملک سے آنے والی رقوم سے بنائے گئے۔
اُنہوں نے دلائل دیے کہ "پاپڑ والے کے اکاؤنٹ سے 14 لاکھ ڈالرز شہباز شریف کے نام پر بھجوائے گئے۔ پاپڑ والے نے بتایا کہ اس کا شہباز شریف فیملی سے کوئی تعلق ہی نہیں اور نہ کبھی پیسے بھجوائے۔"
اِس موقع پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) میں اثاثوں کی تفصیلات جمع کرائی گئی ہیں۔ اُنہوں نے کیوں نہیں پوچھا کہ اثاثے آمدن سے زائد ہیں۔ عدالت نے مزید کہا کہ اگر یہ ایف بی آر کے دائرہ اختیار میں آتا ہے تو نیب کیوں انکوائری کر رہا ہے۔
منگل کو سماعت کے دوران شہباز شریف کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے دلائل دیے کہ نیب نے 110 گواہوں میں سے صرف 10 گواہوں کے بیانات ریکارڈ کیے ہیں جس کے باعث ریفرنس کا ٹرائل جلد مکمل نہیں ہو سکتا۔
شہباز شریف کے وکیل نے کہا کہ احتساب عدالت کے ججز کا تبادلہ ہو گیا ہے جس کے باعث فوری تقرری کا امکان نظر نہیں آ رہا۔ لہذٰا شہباز شریف کی عمر اور صحت کو دیکھتے ہوئے اُن کی ضمانت منظور کی جائے۔
'نیب کی ساکھ خراب ہو رہی ہے'
عدالتی فیصلے پر سینئر صحافی اور تجزیہ کار افتخار احمد کہتے ہیں کہ اِس سوال کا جواب اُن کے پاس نہیں کہ نیب شہباز شریف کے خلاف ابھی تک کچھ بھی ثابت کیوں نہیں کر سکا۔ تاہم اُنہیں اتنے لمبے عرصے تک قید رکھنا زیادتی تھی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے افتخار احمد نے کہا کہ اگر شہباز شریف نے کچھ غلط بھی کیا ہے تو بھی نیب کو اسے ثابت کرنا ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ اگر اِس کیس میں ضمانت ہو بھی گئی ہے تو نیب اُنہیں کسی اور کیس میں گرفتار کر لے گی۔ نیب کے پاس گرفتاری کے اختیارات ہیں۔ وہ کسی کو کبھی بھی گرفتار کر سکتی ہے جس کے لیے اُنہیں کوئی وجہ بتانے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔
افتحار احمد کا کہنا تھا کہ نیب مزید مقدمات بناتی ہے اور پھر ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہتی ہے اس سے ادارے کی ساکھ خراب ہو رہی ہے۔
شہباز شریف کے خلاف کیس تھا کیا؟
گزشتہ سال اگست میں نیب نے احتساب عدالت میں شہباز شریف، ان کے دو بیٹوں اور خاندان کے دیگر افراد کے خلاف سات ارب 32 کروڑ روپے کی منی لانڈرنگ کا ریفرنس دائر کیا تھا۔
ریفرنس میں شہباز شریف پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ اپنے خاندان کے اراکین اور بے نامی دار کے نام پر رکھے ہوئے اثاثوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں جن کے پاس اس طرح کے اثاثوں کے حصول کے لیے کوئی وسائل نہیں تھے۔
ریفرنس میں مزید کہا گیا کہ شہباز شریف کے اہلِ خانہ اثاثوں کے حصول کے لیے استعمال ہونے والی رقوم کے ذرائع کا جواز پیش کرنے میں ناکام رہے۔