انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے حزبِ اختلاف کی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کو ملنے والی مبینہ دھمکیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ایچ آر سی پی نے اپنے ایک پیغام میں کہا ہے کہ پاکستان ماضی میں عام شہریوں، سیاسی قیادت، درس وتدریس سے جُڑے افراد، سیاسی کارکنوں اور انسانی حقوق کی آواز بلند کرنے والے افراد سمیت دیگر کی حفاظت کو یقینی نہیں بنا سکا۔ اس صورتِ حال میں مریم نواز کے الزامات کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔
ایچ آر سی پی نے یہ بیان ایسے وقت میں دیا ہے جب گزشتہ ہفتے پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم اور مریم نواز کے والد میاں نواز شریف نے لندن سے جاری ایک ویڈیو بیان میں اپنی صاحبزادی کو ملنے والی دھمکیوں کا ذکر کیا تھا۔
نواز شریف نے سینئر عسکری قیادت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ باز آ جائیں۔
انہوں نے وزیرِ اعظم عمران خان کے علاوہ فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ، خفیہ ادارے انٹر سروس انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ جنرل فیض حمید اور جنرل عرفان ملک کا نام لیا تھا۔
تاہم سابق وزیرِ اعظم کے ویڈیو بیان اور تنبیہہ پر عسکری قیادت کی طرف سے کسی قسم کا کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔
نواز شریف نے اپنے ویڈیو بیان میں دعویٰ کیا تھا کہ مریم نواز کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں کہ اگر وہ خاموش نہ ہوئیں تو انہیں 'اسمیش' کر دیا جائے گا۔
لاہور میں پیر کو ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے مریم نواز کا کہنا تھا کہ اُنہیں ملنے والی دھمکیوں کا وہ صرف اُس وقت جواب دیں گی جب نواز شریف کے ویڈیو بیان کو پاکستانی ذرائع ابلاغ میں دکھایا جائے گا۔
مریم نواز کو ملنے والی مبینہ دھمکیاں اور نواز شریف کے ویڈیو پیغام پر حکمراں جماعت نے باقاعدہ طور پر کوئی ردِ عمل جاری نہیں کیا۔ البتہ تحریک انصاف کی رکنِ پنجاب اسمبلی مسرت جمشید چیمہ کہتی ہیں مریم نواز کو کسی اور سے خطرہ نہیں بلکہ اپنے خاندان سے خطرہ ہے۔
مسرت جمشید چیمہ اسٹینڈنگ کمیٹی برائے محکمۂ داخلہ کی چیئرپرسن ہیں۔ جن کا دعویٰ ہے کہ مسلم لیگ (ن) میں اصل لڑائی پارٹی کی سربراہی کے لیے ہو رہی ہے۔
اُن کے بقول مریم نواز اُسی طرح کا این آر او چاہتی ہیں جس طرح کا ان کے والد کو پلیٹلیٹس کی تعداد کم ہونے پر دیا گیا تھا تاکہ وہ بھی باہر چلی جائیں۔ جب اِن کی شرائط نہیں مانی جاتیں تو یہ بلیک میلنگ اور مسلح افواج کو بدنام کرنا شروع کر دیتی ہیں۔
مسرت چیمہ نے الزام عائد کیا کہ مسلم لیگ (ن) غیر ملکی ایجنڈے پر کام کرتے ہوئے ایک خطرناک بیانیے کے ساتھ کھیل رہی ہے۔ ان کے بقول (ن) لیگ کا بیانیہ ان لوگوں کا بیانیہ ہے جو پاکستان کی مسلح افواج کو مضبوط نہیں دیکھنا چاہتے۔
مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور رکنِ قومی اسمبلی رانا ثنااللہ کہتے ہیں کہ مریم نواز کی سیکیورٹی سے متعلق ان کی جماعت حکومت سے کہتی رہی ہے کہ اُن کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے لیکن اُس پر حکومت نے نہ کبھی عمل کیا اور نہ ہی کبھی سیکیورٹی فراہم کی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے رانا ثنااللہ نے الزام عائد کیا کہ جب حکمران ہی مریم نواز کو دھمکیاں دے رہے ہوں تو کس سے سیکیورٹی طلب کی جائے اور کس سے شکایات کی جائے؟
واضح رہے کہ نواز شریف کی جانب سے مریم نواز کی جان کو لاحق خطرات کا ذکر ایسے موقع پر کیا گیا ہے جب حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتوں پر مشتمل اتحاد 'پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ' موجودہ حکومت کے خلاف ممکنہ لانگ مارچ کی مشاورت کر رہا ہے۔
کیا مریم نواز کی جان کو واقعی خطرہ ہے؟
سینئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ مریم نواز کی جان کو تین طاقتوں سے خطرہ ہو سکتا ہے۔ جن میں غیر ریاستی طاقتیں اور ریاستی طاقتیں شامل ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سہیل وڑائچ نے کہا کہ مریم نواز کو دھمکیاں دینے والی ریاستی طاقتوں میں مقتدرہ قوتیں بھی ہو سکتیں ہیں اور حکومت بھی۔ جب کہ غیر ریاستی طاقت وہی دہشت گرد ہیں جو پہلے بھی کئی لوگوں کی جان لے چکے ہیں۔
ان کے بقول نواز شریف نے اپنی تقریر میں ریاستی طاقت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ریاستی طاقت کی طرف سے اُنہیں کچلنے کی بات کی گئی ہے۔ جس کے لیے 'اسمیش' کا لفظ استعمال کیا گیا اور یہ لفظ غیر ریاستی طاقتیں استعمال نہیں کر سکتیں۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس سمجھتے ہیں کہ بادی النظر میں نواز شریف کی حالیہ تقریر میں پیغام سے لگتا ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کو پیغام دے رہے ہیں۔
مظہر عباس کے مطابق نواز شریف نے اتنا سخت بیان کیوں دیا، یہ جاننا زیادہ اہم ہے۔ اُن کے بقول جان کو خطرے والی بات بہت سنجیدہ ہوتی ہے۔ اِس سلسلے میں اگر کوئی انٹیلی جنس رپورٹ ہو تو ضرور سامنے آنی چاہیے۔ لیکن ایسی کوئی بات نہ نواز شریف سامنے لائے اور نہ مریم نے کوئی ذکر کیا۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ جس طرح سے احتساب کا ادارہ 'نیب' متحرک ہوا ہے اُس سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ مریم نواز کو دباؤ میں لانے کی کوشش کی جا رہی ہے کیوں کہ حکومت کے خلاف اپوزیشن کی جانب سے سب سے مؤثر آواز مریم نواز کی سمجھی جاتی ہے۔
واضح رہے مریم نواز اِن دنوں چوہدری شوگر ملز کیس میں ضمانت پر رہا ہیں اور چیئرمین نیب نے اُن کی ضمانت منسوخی کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کر رکھا ہے۔
نیب نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ مریم نواز ضمانت پر رہا ہونے کے بعد سے مسلسل ریاستی اداروں پر حملے کر رہی ہیں۔ وہ ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا کے ذریعے بھی ریاستی اداروں کے خلاف بیان بازی کر رہی ہیں۔
نواز شریف کس سے مخاطب تھے؟
سہیل وڑائچ کے بقول نواز شریف کی تقریر کے مطابق ریاستی طاقت سے مراد حکومتی طاقت نہیں بلکہ مقتدرہ کی طاقت ہے۔ اسی لیے اُنہوں نے کچھ نام بھی لیے ہیں۔
لیکن مظہر عباس کہتے ہیں کہ شریف خاندان کو خدشات ہیں لیکن اِس پر زیادہ تبصرہ اِس لیے نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ اُنہوں نے خود ان خدشات کی بہت زیادہ وضاحت نہیں کی۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ سیاست دانوں کی جان کی حفاظت کرنا اور انہیں سیکیورٹی فراہم کرنا اصولی طور پر ریاست کا کام ہے۔ حکومت کو اِس سلسلے میں کوئی کوتاہی نہیں کرنی چاہیے بلکہ حکومت کو خود مریم نواز سے پوچھنا چاہیے کہ اُنہیں کس سے خطرہ ہے۔
مظہر عباس کی رائے میں بنیادی طور پر کسی بھی شخص کی حفاظت ریاست کا کام ہوتا ہے کیوں کہ اُن کے پاس انٹیلی جنس رپورٹس ہوتی ہیں۔ اُن کے بقول جس طرح بے نظیر بھٹو کے کیس میں بھی دیکھا گیا کہ اُن کی جان کو لاحق خطرات کے بارے میں انٹیلی جنس رپورٹ تھیں لیکن اس کے باوجود سیکیورٹی دینا ریاست ہی کی ذمہ داری بنتی ہے۔
مریم نواز کی خاموشی سے کس کا فائدہ ہو گا؟
اس سوال پر سہیل وڑائچ کہتے ہیں مریم نواز جب سے سیاست میں بولنا شروع ہوئیں ہیں اُن کی آواز کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کبھی مقدمات کے ذریعے، کبھی دھمکیوں کے ذریعے کبھی کسی اور طرح سے لیکن یہ کوئی اچھی جمہوری روایت نہیں۔
انہوں نے کہا کہ سیاست دان کو آزادیٔ اظہار اور آزادانہ نقل وحرکت کی اجازت ہونی چاہیے اور ایسا آئینِ پاکستان میں بھی لکھا ہے۔
مظفر عباس کے بقول وہ سمجھتے ہیں کہ سیاسی صورتِ حال کے پیشِ نظر حکومت خوفزدہ کرنا چاہ رہی ہو۔ اُنہوں نے کہا کہ اگر مریم نواز لانگ مارچ کریں گی تو جس گاڑی میں وہ سفر کرتی ہیں اگر وہ اُس سے باہر نہ نکلیں تو اسے دوسرا رنگ دیا جائے گا۔
مظہر عباس کے بقول مریم نواز مجمع کو اکٹھا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اگر وہ حکومت کے خلاف لانگ مارچ کرتی ہیں تو حالات اور حفاظت کے پیش نظر بعض مقامات پر اُنہیں تقریر نہیں کرنی چاہیے۔
حکومت اور فوج کا ردِعمل
خیال رہے کہ ماضی میں اس نوعیت کے الزامات کی پاکستانی فوج تردید کرتی رہی ہے۔ پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتحار کئی مواقع پر کہہ چکے ہیں کہ افواجِ پاکستان کا سیاسی معاملات میں کوئی عمل دخل نہیں اور نہ ہی اُنہیں سیاست میں گھسیٹا جائے۔
نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما میاں جاوید لطیف کے ایک حالیہ متنازع بیان پر ردِعمل کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان کے معاونِ خصوصی برائے سیاسی روابط ڈاکٹر شہباز گل نے کہا تھا کہ "ان سے کوئی بعید نہیں کہ خود ہی کوئی واقعہ کروا کر نیا بیانیہ لے آئیں۔