کہا جاتا ہے "جنے لاہور نئیں تکیا او جمیا ہی نئیں۔" پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور کے بارے میں اس کہاوت کو مدّ نظر رکھتے ہوئے ہی شاید امریکی اخبار 'نیو یارک ٹائمز' کے قارئین نے لاہور شہر کو دنیا کے 2000 سے زائد مقامات میں سے چوٹی کے 52 مقامات میں شامل کیا ہے جسے 2021 کے لیے سیاحوں کے لیے پرکشش شہر قرار دیا گیا۔
ماہرین کے مطابق لاہور کو دنیا کے پر کشش ترین شہروں میں شامل کیے جانے کی وجہ مغل دور میں تعمیر کردہ عمارتیں اور اندرون لاہور کے علاقے ہیں۔
پچھلے 20 برسوں میں اندرون لاہور کے علاقوں میں قائم قدیم عمارتوں کے تحفظ کے لیے کی جانے والی کوششوں کے سبب اس شہر کی کشش میں اضافہ ہوا ہے۔
لاہور اور جان ملٹن
شہر لاہور پر لکھی گئی متعدد کتابوں کے مصنف، تاریخ دان اور تاریخی درس گاہ 'ایچیسن کالج' کے سابق پرنسپل فقیر سید اعجازالدین کا ماننا ہے کہ لاہور شہر کو دنیا کے پرکشش ترین مقامات میں بہت دیر سے شامل کیا گیا ہے۔
اُن کے بقول اس شہر کی تاریخی اہمیت اور یہاں کی ثقافت اس بات کی متقاضی تھی کہ اسے بہت پہلے سیاحوں کے لیے پرکشش قرار دیا جاتا۔
Your browser doesn’t support HTML5
فقیر سید اعجازلدین کا وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ امریکی شاعر جان ملٹن کے وقت سے جنہوں نے سترہویں صدی میں لکھی گئی اپنی کتاب 'پیراڈائز لوسٹ' میں لاہور کے ادب، ثقافت، میوزک، کھانوں اور تاریخی مقامات کا ذکر کیا تھا۔ یہ شہر آج بھی ان چیزوں کا مرکز ہے۔
'لاہور کی گلیاں تنگ لیکن دل بہت بڑے ہیں'
لاہور کی والڈ سٹی کے تحفظ اور یہاں کی تاریخی عمارتوں کی بحالی کے لیے کوشاں والڈ سٹی لاہور اتھارٹی (ڈبلیو سی ایل اے) کے ڈائریکٹر جنرل کامران لاشاری کہتے ہیں کہ لاہور دنیا کے دیگر شہروں سے اس لیے مختلف ہے کیوں کہ یہ شہر 'لیونگ میوزیم' ہے۔
کامران لاشاری کا کہنا تھا کہ لاہور شہر میں مختلف ادوار میں مختلف مذاہب اور قوموں نے اپنا حصہ ڈالا ہے جس کی وجہ سے لاہور آج ایک بہت بڑی وراثت ہے۔
ان کے بقول "آپ یورپی ملک اٹلی کے شہر وینس چلے جائیں یا دیگر تاریخی شہروں میں، وہ بہت صاف ستھرے ہیں اور خوب صورت ہیں۔
ان کے بقول لاہور کی ایک قدرتی حیثیت ہے اور انگریزوں نے بھی اس کی تاریخی اہمیت کا ادراک کرتے ہوئے یہاں سیاحت اور فنونِ لطیفہ کو فروغ دیا۔
کامران لاشاری کہتے ہیں کہ اندرون لاہور ایک محلے کی طرح ہے یہاں کی گلیاں تنگ ہیں لیکن دل بہت بڑے ہیں۔
'لاہوری انتہائی ملنسار ہیں'
لاہور کی معروف سماجی شخصیت اور اندرون لاہور کی تاریخی بارود خانہ حویلی کے رہائشی یوسف صلاح الدین کا کہنا ہے کہ یہاں کے لوگ انتہائی ملنسار ہیں۔
ان کے بقول لاہوری جب دیکھیں کہ کوئی باہر سے آیا ہے تو وہ گزرتے گزرتے بھی ان سے کھانے کا پوچھ لیں گے۔ کسی چیز کے پیسے نہیں لیں گے۔ ان کے بقول لاہور کی ایک روایت ہے کہ یہ بہت مہمان نواز شہر ہے۔
اندرون لاہور اور دنیا کے دیگر تاریخی شہر
لاہور کا دنیا کے دیگر تاریخی شہروں سے موازنہ کرتے ہوئے فقیر اعجازالدین کا کہنا تھا کہ دنیا کے تاریخی ممالک میں شہروں کے گرد دیواریں تعمیر کی جاتی تھیں۔ جیسے اسپین کے شہر قرطبہ جائیں، فرانس جائیں یا چین۔ وہاں ان کے شہروں کی خاصیت یہ تھی کہ ان کے گرد دیواریں تھیں اور دیواروں کی حدود میں پورے شہر آباد تھے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ لاہور کے گرد بھی دیوار تعمیر کی گئی تھی۔ جس کے اندر مختلف مذاہب کے لوگ رہائش پذیر تھے۔ جن کے کھانے، رسم و رواج اور ثقافت مختلف تھی۔ ان کے بقول آج بھی لاہور کے اندرون علاقوں میں یہ دلکشی پائی جاتی ہے۔
لاہور کے کھانوں کے بارے میں فقیر اعجازالدین کا کہنا تھا کہ یہاں کے کھانوں کی کوئی خاص ترکیب نہیں ہے۔ تاہم لاہوریوں کا ایک انداز اور طریقہ ہے پکانے کا جیسے دہلی یا بھارتی حیدر آباد کا ہے۔
لاہور بمقابلہ نئی دہلی
بھارت کے دارالحکومت اور تاریخی شہر دہلی اور لاہور دونوں شہروں میں مغل دور میں تعمیر ہونے والے تاریخی مقامات کا موازنہ کرتے ہوئے فقیر اعجازالدین کا کہنا تھا کہ ہر جگہ کی اپنی اپنی شناخت ہوتی ہے اور لاہور کی اہمیت دیگر تاریخی شہروں سے مختلف ہونے کی وجہ سے ہی 'لہور لہور اے' (لاہور لاہور ہے)۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ لاہور کو جو چیز دنیا کے دیگر شہروں سے منفرد کرتی ہے۔ وہ لاہوریوں کی مہمان نوازی اور ان کے کھلے دل ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ن کا مزید کہنا تھا کہ لاہوری صدیوں سے لوگوں کا استقبال کرتے تھے اور یہ روایت آج بھی قائم ہے۔ ان کے بقول آپ آج بھی لاہور جائیں تو یہاں کے لوگ آپ کو اجنبی نہیں سمجھیں گے اور یہی وجہ ہے کہ 'نیو یارک ٹائمز' نے لاہور کو سیاحت کے لیے پرکشش قرار دیا ہے۔
نئی دہلی کے تاریخی مقامات اور اندرون علاقوں کا موازنہ کرتے ہوئے کامران لاشاری کا کہنا تھا کہ دہلی کے لوگوں میں ان مقامات کی اہمیت کا احساس نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ کسی ملک کی حکومت نے اندرون شہر کے لیے ایک خودمختار باڈی بنائی ہے جس کا مقصد لاہور کے اندرون علاقوں کا انفراسٹرکچر ٹھیک کرنا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایسا بھارت کے اندرون علاقوں میں بھی نہیں ہوا ہو گا کہ بجلی کی ساری تاریں زیرِ زمین کر دی گئی ہوں۔
اسی بارے میں یوسف صلاح الدین کا کہنا تھا کہ نئی دہلی میں سیاحت پاکستان کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ تاہم ان کے بقول سیاح ہر بار ایک نئی چیز دیکھنا چاہتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ لاہور میں اگر دو لاکھ سیاح آ جائیں تو ان کے رہنے کے لیے جگہ نہیں ہو گی۔
اندرون لاہور کی بحالی
فقیر اعجازالدین کا کہنا تھا کہ لاہور کا تاریخی اندرون علاقہ سات سو سال سے قائم ہے۔ تاہم ان کے بقول اس تاریخی علاقے میں جو محنت پچھلے 20 سالوں میں کی گئی ہے اور خاص طور پر 'آغا خان ٹرسٹ' اور 'عالمی بینک' نے تاریخی عمارتوں اور اندرون شہر کو محفوظ بنانے کے لیے جو فنڈز دیے ہیں۔ اس کی وجہ سے اندرون لاہور دوبارہ زندہ ہو گیا ہے۔
کامران لاشاری کہتے ہیں کہ مسجد وزیر خان اور شاہی حمام میں تقریبات کے انعقاد کو 'یونیسکو' نے بھی سراہا ہے۔
اُن کے بقول شاہی قلعے کی بحالی پر کام تیزی سے جاری ہے اور اس کے اندر موجود 21 تاریخی عمارتوں میں سے آٹھ مقامات پر کام ہو رہا ہے۔
کامران لاشاری کہتے ہیں کہ شاہی قلعے میں مختلف تقریبات جیسے صوفی میوزک، داستان گوئی اور ہسٹری بائے نائٹ جیسے پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں۔
کامران لاشاری کا نیو یارک ٹائمز کے 52 شہروں میں لاہور کو شامل کرنے پر کہنا تھا کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ محنت رائیگاں نہیں جاتی۔
اُن کا کہنا تھا کہ اگر اندرون شہر میں قائم بڑے کاروباری مراکز یہاں سے منتقل ہو جائیں تو اس جگہ کی بحالی میں آسانی ہو گی۔ اُن کے بقول ریلوے اسٹیشن سے اندرون شہر تک ایک فلائی اوور کی منظوری ہو گئی ہے جس پر تین ارب روپے سے زائد کی لاگت آئے گی۔
Your browser doesn’t support HTML5
لاہور شہر کی سیاحتی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے یوسف صلاح الدین کا کہنا تھا کہ لاہور میں بادشاہی مسجد جہانگیر اور آصف جاہ کا مقبرہ جب کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی مڑی ہے۔
ان کے بقول اس کے علاوہ مذہبی سیاحت بھی بہت زیادہ ہے اور سکھوں کا مذہبی مقام ننکانہ صاحب بھی لاہور کے قریب ہی واقع ہے۔ جس کی وجہ سے لاہور شہر کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔