پوریوں کے ساتھ کھوئے والا حلوہ، انڈا چنے، قیمہ بھری پوریاں، لال بوٹی کے ساتھ تلوں والے قلچے اور پھر کھوئے والی لسی کے بعد کڑک دودھ پتی چائے۔ یہ دسترخوان میرے اور میرے بھائی کے ناشتے پر اکثر سجتا ہے جب ہم اپنے گھر سے لگ بھگ 30 کلو میٹر دور اندرون لاہور کی طرف جاتے ہیں۔
کرونا وائرس کے سبب جاری لاک ڈاؤن میں جب اس ناشتے کے بارے میں سوچ کر فیس ماسک سے ڈھکے منہ میں پانی آیا تو یہ معلوم ہونے کے باوجود کہ ناشتے کی سب دکانیں بند ہوں گی، ہم دونوں اس امید پر گھر سے نکل پڑے کہ چلو ناشتہ نہ سہی، کوئی خبر تو مل جائے گی۔
یا پھر یہی پتا چل جائے گا کہ اندرون لاہور کے رہائشی لاک ڈاؤن میں بھی باہر گھوم رہے ہیں یا بیرونی دریچوں والے تاریخی گھروں میں قید ہو کر رہ گئے ہیں۔
لاہور ایئرپورٹ کے قریب اپنے گھر سے جب ہم گڑھی شاہو کے علاقے میں پہنچے تو راستے میں قلچوں (نان بائیوں) کی دکانیں تو کھلی دکھائی دیں۔ مگر چنے، پائے یا حلوہ پوری والا کوئی نظر نہیں آیا۔
صدر چوک میں واقع ایک مشہور دکان کا شٹر آدھا کھلا ہوا تھا اور باہر کچھ فاصلے پر لوگوں کی قطار بھی لگی تھی۔ یہ لوگ لاک ڈاؤن میں بھی ناشتے کی خواہشات کی تاب نہ لاتے ہوئے حلوہ پوری لینے پہنچے تھے۔
ہم نے یہ قطار دیکھی تو امید ہوئی کہ چلو حلوہ پوری کے شیدائیوں سے گفتگو کر کے کوئی نہ کوئی خبر تو ضرور مل جائے گی۔ تاہم دکان کے باہر قطار میں کھڑے دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرتے گاہکوں کو فوراً اخلاقیات کے اعلٰی اصول یاد آ گئے۔
ہمارے ہاتھ میں کیمرا دیکھ کر وہ کہنے لگے کہ بغیر اجازت ویڈیو یا تصویر بنانا غیر اخلاقی سمجھا جاتا ہے۔ اتنی دیر میں گاہکوں سے آرڈر لینے والا شخص بھی کہنے لگا کہ باؤ جی جاؤ اپنا کام کرو۔ االلہ اللہ کر کے دکان کھولی ہے اور آپ تصویریں چھاپ کر ہماری روزی پر لات مارنا چاہتے ہو۔
گڑھی شاہو کے گنجان آباد علاقے سے بھی ہم خالی ہاتھ شملہ پہاڑی کی طرف چل دیے۔ خبر کی کھوج میں ایبٹ روڈ سے ہوتے ہوئے جب ہم لاہور کے مشہور لکشمی چوک پہنچے تو وہ بھی طوفان کے بعد چھا جانے والے سناٹے کی تصویر بنا ہوا تھا۔
کشمیری ہریسے کی دکانوں والا 'نسبت روڈ' بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد لگنے والے کرفیو کا منظر پیش کر رہا تھا۔
لاہور کی مشہور گوال منڈی لاک ڈاؤن میں بھی لاہوریوں کی زندہ دلی کی روداد سنا رہی تھی۔ یہاں تاریخی عمارتوں میں بنائی جانے والی دکانیں تو بند تھیں۔ مگر ان کے پچھلے حصوں میں روایتی ناشتہ تناول کیا جا رہا تھا۔
یہاں موجود لوگوں کو نہ تو کرونا وائرس سے ہلاکتوں کی کوئی پرواہ تھی اور نہ ہی اس وائرس کا نشانہ بننے کا خوف۔ بس اگر کچھ تھا تو دیسی بکرے کے پائے، خستہ قلچے اور ملائی والی لسی۔
لاک ڈاؤن میں ایسا ناشتہ دیکھ کر منہ میں پانی تو بہت آیا۔ لیکن ناشتے سے زیادہ ضرورت ہمیں خبر کی تھی۔ لیکن ناشتہ کرنے والوں اور دکان دار نے ویڈیو یا تصویر نہ بنانے کی تنبیہ کر کے ارادوں پر پانی پھیر دیا۔
گوال منڈی سے براستہ ریلوے روڈ ہم لاہور کے سرکلر روڈ پہنچے جس کے دونوں اطراف دکانیں ہی دکانیں ہیں۔ یہاں بالکل وہی منظر تھا جو کسی زمانے میں متحدہ قومی موومنٹ کی طرف سے کراچی میں کی جانے والی ہڑتالوں میں ہوا کرتا تھا۔
تمام دکانیں بند تھیں اور کہیں کہیں نشے کے عادی افراد کسی ایسی چیز کی تلاش میں تھے جسے فروخت کر کے وہ اپنی طلب پوری کر سکیں۔
سرکلر روڈ خالی دیکھ کر احساس ہوا کہ لاہور میں ٹریفک واقعتا بہت بڑھ گیا ہے۔ کیوں کہ عام طور پر یہاں گاڑی چلانا ڈرائیور کا امتحان ہوتا ہے اور گاڑیوں کی بہتات سے یہ سڑک بھی تنگ لگنے لگتی ہے۔
خیر یونہی چلتے پھرتے داتا دربار کے قریب بھاٹی چوک پہنچے اور زندگی میں پہلی مرتبہ اور شاید آخری بار بھاٹی دروازے کے اندر گاڑی لے جانے کا حوصلہ کیا۔
ایسی سڑک جہاں بمشکل ایک گاڑی گزر سکتی ہو، اندرون لاہور کے رہائشیوں سے قدرے آباد دکھائی دے رہی تھی۔ ناشتے کی دکانیں کھلی تھیں جن پر گاہک نا ہونے کے برابر تھے۔ البتہ ویڈیو بنانے کا ارادہ بھاٹی گیٹ میں بھی پورا نہ ہو سکا۔
بھاٹی گیٹ سے براستہ حکیماں والے بازار اور ٹبی گلی ہوتے ہوئے ہم لاہور کی مشہور ہیرا منڈی (ٹکسالی دروازہ) پہنچے۔ جہاں "پھجا پائے والا" اور اس کے اردگرد ناشتے کی کئی دکانیں بند تھیں۔ اس کے علاوہ جس تاریخی دکان 'تاج محل' سوئٹ پر ہم عام دنوں میں ناشتہ کرنے جاتے تھے۔ اس کا بند شٹر بھی ہمیں منہ چڑا رہا تھا۔
مطلوبہ پسندیدہ ناشتہ نا ملنے کے بعد ہم نے ٹیکسالی گیٹ کی پتلی، بل کھاتی گلیوں سے دہلی دروازہ جانے کا ارادہ کیا۔ میں اپنی تین دہائیوں سے زیادہ گزر چکی زندگی میں اپنی گاڑی اندرون لاہور کی صرف ان گلیوں میں نہ لے جا سکا جن کے بارے میں مشتاق احمد یوسفی لکھتے ہیں کہ
"اندرون لاہور کی بعض گلیاں اتنی تنگ ہیں کہ اگر ایک طرف سے عورت آرہی ہو اور دوسری جانب سے مرد تو درمیان میں صرف نکاح کی گنجائش بچتی ہے۔"
خبر کی کھوج میں ناکام رہنے کے بعد ہم نے گھر واپسی کا ارادہ کیا اور اس سے پہلے لاہور کے ریلوے اسٹیشن پہنچے۔
اسٹیشن کے باہر فٹ پاتھ پر بیٹھے مسافروں کی راہ تکتے قلی دیکھ کر خیال آیا کہ چلو ناشتہ نہ سہی، قلیوں کا حال احوال معلوم کرتے چلیں کہ لاک ڈاؤن میں ان پر کیا گزر رہی ہے۔
قلیوں سے بات کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ لوگ اپنی روزانہ کی آمدنی کا 30 فی صد حکومت کے متعین کردہ ٹھیکے دار کو دیتے ہیں۔ لیکن جب سے ٹرینیں بند ہوئی ہیں تو ان کی آمدنی کا واحد ذریعہ بھی ختم ہو گیا ہے۔ اب یہ لوگ بے یار و مددگار ریلوے اسٹیشن پر پڑے ہیں اور حکومت کی جانب سے اعلان کردہ امدادی رقم کا انتظار کر رہے ہیں۔