ترکی کے وسط میں واقع ایک قدیم جھیل توز صدیوں سے سرخی مائل بگلے نما پرندے فلیمنگو کی میزبانی کر رہی ہے جو گرمیوں کا موسم شروع ہوتے ہی بڑی تعداد میں وہاں اترتے ہیں اور اپنے بچوں کی افزائش کرتے ہیں۔ یہ جھیل انہیں بڑی مقدار میں ان کی مرغوب خوراک فراہم کرتی ہے۔
تاہم، جنگلی حیات کی تصویریں کھینچنے والے فوٹو گرافر فہری ٹنک کی اس سال گرمیوں میں توز جھیل کی کچھ تصویریں ایک دلخراش منظر پیش کرتی ہیں۔ ان تصاویر میں، جہاں کبھی ڈوبتے سورج کی روشنی میں سرخی مائل شفق پر اپنے خوبصورت سرخ پر پھیلائے پرندوں کے غول قطار اندر قطار پانیوں میں اترتے تھے، وہاں خشک جھیل کی کٹی پھٹی تہہ پر جگہ جگہ بگلے نما سرخ فلیمنگوز اور ان کے بچوں کی لاشیں بکھری پڑی ہیں۔
لگ بھگ 1665 مربع کلومیٹر پر پھیلی اس جھیل کا شمار ترکی کی دوسری سب سے بڑی جھیل اور مختلف اقسام کے پرندوں کے ایک پسندیدہ مسکن کے طور پر کیا جاتا رہا ہے، لیکن آب و ہوا کی تبدیلی کے عمل نے اس سال یہ جھیل بھی نگل لیا اور اس کا پانی خشک پڑ گیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جھیل توز خشک پڑنے سے اس خطے کو شدید نقصان پہنچا ہے جس سے کاشت کاری کے لیے پانی کی فراہمی کا ایک اہم ذریعہ ختم ہو گیا ہے۔
ترکی کے ماحولیات سے متعلق ایک ادارے 'ڈوگا ڈرنیگی' کے سربراہ ٹونگ کہتے ہیں کہ اس جھیل میں تقریباً 50 ہزار فلیمنگو رہتے تھے، جن میں سے اب ایک بھی باقی نہیں بچا، کیونکہ جھیل میں اب پانی نہیں رہا۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جسے میں کبھی نہیں بھلا سکوں گا۔
آب و ہوا کی تبدیلی اور کرہ ارض کا درجہ حرارت مسلسل بڑھنے کے اثرات صرف توز جھیل تک ہی محدود نہیں ہیں، ترکی میں کئی دوسری جھیلیں بھی یا تو خشک ہو گئی ہیں یا ان میں پانی کی سطح خطرناک حد تک گھٹ گئی ہے۔ ترکی کے اکثر علاقوں میں کاشت کاری اور آب پاشی کے لیے بارشوں اور جھیلوں کے پانی پر انحصار کیا جاتا ہے، جس میں اب مشکلات پیش آ رہی ہیں، کیونکہ بارشوں کا تناسب نمایاں طور پر گھٹ گیا ہے۔
موسمیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ بحیرہ روم کا پورا خطہ، جس میں ترکی بھی شامل ہے، خشک سالی اور صحرا میں تبدیل ہونے کی جانب بڑھ رہا ہے۔
ترکی کی سب بڑی جھیل کا نام وین ہے۔ یہ ملک کے مشرق میں واقع ہے۔ اس جھیل میں بھی پانی کی سطح مسلسل گر رہی ہے اور وہاں پانی اتنا نیچے چلا گیا ہے کہ اب ماہی گیر اپنی کشتیاں گودی تک نہیں لے جا سکتے۔
بوگازیکی یونیورسٹی کے آب و ہوا کی تبدیلی کے مطالعے کے مرکز کے ایک سائنس دان لیونٹ کرناز کہتے ہیں کہ ترکی میں درجہ حرارت مسلسل بڑھ رہا ہے جب کہ بارشوں کی اوسط گھٹتی جا رہی ہے۔ ہمیں زراعت اور دیگر ضروریات کے لیے پانی کی اشد ضرورت ہے۔ حالات ابتری کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
ترکی کی ایگی یونیورسٹی نے سیٹلائٹ سے حاصل ہونے والی توز جھیل کی تصاویر پر مبنی اپنی ایک مطالعاتی رپورٹ میں بتایا ہے کہ توز میں پانی کی سطح میں کمی کا آغاز سن 2000 میں ہوا تھا، جس کی وجہ ناکافی بارشیں، بڑھتا ہوا درجہ حرارت اور خشک فضا تھی۔ ان عوامل کے نتیجے میں اس سال یہ جھیل مکمل طور پر خشک ہو گئی ہے۔
وسطی اناطولیہ میں واقع کونیا کے علاقے کو، جس میں جھیل توز بھی شامل ہے، ترکی کا ایک زرخیز خطہ شمار ہوتاہے، اور وہاں زیادہ ترکاشت کاری کی جاتی ہے، زیر زمین پانی کی سطح مسلسل گھٹ رہی ہے۔
بارش کی کمی کے ساتھ ساتھ اس کی ایک وجہ زیر زمین پانی کا بڑھتا ہوا استعمال ہے۔ لوگ لائسنس حاصل کیے بغیرٹیوب ویل لگا رہے ہیں جس سے زیر زمین پانی کی سطح مزید گھٹ رہی ہے اور خشک سالی سے منسلک مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔