|
دہلی کی ’جواہر لعل نہرو یونیورسٹی‘ (جے این یو) میں طلبہ یونین کے انتخابات میں بائیں بازو کے امیدوارں کی کامیابی کو موجودہ ملکی سیاست کے تناظر میں اہم سمجھا جا رہا ہے۔
انتخابات میں چاروں کلیدی عہدوں میں بائیں بازو کے اُمیدوار کامیاب ہوئے ہیں جب کہ حکمراں جماعت ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ (بی جے پی) کی طلبہ تنظیم ’اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد‘ (اے بی وی پی) کے امیدواروں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
تجزیہ کار اسے جے این یو میں مبینہ نفرت کی سیاست کو پروان چڑھانے کی کوششوں کے لیے ایک دھچکہ تصور کر رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ طلبہ نے نفرت کی سیاست کو مسترد کر دیا ہے۔
جے این یو میں چار سال کے وقفے کے بعد طلبہ یونین کے انتخابات ہوئے ہیں۔ اس بار بائیں بازو کی تنظیموں نے ایک اتحاد قائم کیا اور اس کے بینر تلے الیکشن لڑا۔
انتخابی نتائج کے مطابق صدر کے عہدے کے لیے بائیں بازو کی تنظیم ’آل انڈیا اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن‘ (آئسا) کے دھننجے، نائب صدر کے عہدے پر ’اسٹوڈنٹس فیڈریشن آف انڈیا‘ (ایس ایف آئی) کے اویجیت گھوش، جنرل سیکریٹری کے لیے ’ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن‘ (ڈی ایس ایف) کی سواتی سنگھ اور جوائنٹ سیکریٹری کے لیے ’آل انڈیا اسٹوڈنٹس فیڈریشن‘ (اے آئی ایس ایف) کے محمد ساجد کامیاب ہوئے ہیں۔
بائیں بازو کے اتحاد اور اے بی وی پی میں کانٹے کی ٹکر تھی اور ابتدائی رجحانات میں اے بی وی پی کی کامیابی نظر آ رہی تھی۔ لیکن حتمی نتائج میں بائیں بازو کے امیدواروں کو کامیابی حاصل ہوئی۔
دہلی یونیورسٹی میں ہندی کے استاد اور دائیں بازو کی سیاست کے سخت مخالف کے طور پر مشہور پروفیسر اپوروانند کا کہنا ہے کہ اس نتیجے سے بہت زیادہ خوش نہیں ہونا چاہیے اور ایسا نہیں سمجھنا چاہیے کہ جے این یو کے طلبہ نے متفقہ طور پر مبینہ نفرت انگیز سیاست کو مسترد کر دیا ہے۔
ان کے بقول ہار اور جیت کا فیصلہ بہت کم ووٹوں کے فرق سے ہوا ہے۔
تاہم اعداد و شمار کے مطابق جے این یو طلبہ یونین کے انتخابات میں 12 برس کے بعد طلبہ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور 73 فی صد پولنگ ہوئی۔
جے این یو کے بعض تعلیم یافتہ افراد کا کہنا ہے کہ یہ اچھی خاصی پولنگ ہے جو اس بات کا اشارہ ہے کہ طلبہ کیمپس میں تعلیم کا ماحول چاہتے ہیں لڑائی جھگڑے کا نہیں۔
جے این یو سے پی ایچ ڈی کرنے والے معروف ادیب اور اردو کے ایک بڑے ادارے ’انجمن ترقیٴ اردو ہند‘ کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر اطہر فاروقی کہتے ہیں کہ پہلے جے این یو میں طلبہ کے داخلے میں اساتذہ کو خاصا اختیار حاصل تھا۔ لیکن اب داخلہ پالیسی تبدیل کر دی گئی اور اس کا مقصد حکمراں جماعت کے نظریات سے قریب رہنے والے طلبہ کو داخلہ دینا تھا۔
SEE ALSO: الیکشن سے قبل ہندوتوا کا نظریہ پیش کرنے والے ساورکر پر بننے والی فلم ریلیز؛ کیا نئی بحث کا آغاز ہو گا؟وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ان کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا اور جن طلبہ کو اس پالیسی کے تحت داخلہ دیا گیا تھا انہوں نے بھی بائیں بازو کے امیدواروں کو ووٹ دیے۔
وہ کہتے ہیں کہ طلبہ کے ذہنوں میں مبینہ طور پر نفرت کے بیج بوئے گئے۔ لیکن جب چار سال کے بعد طلبہ کو ووٹ دینے کا حق ملا۔ تو انہوں نے اس سیاست کو مسترد کر دیا۔
یاد رہے کہ حکومت اور بی جے پی کا مؤقف ہے کہ جے این یو میں ملک مخالف طلبہ سرگرم ہیں۔ اس کے علاوہ طلبہ کی اکثریت بھارت کی مذہبی ثقافت کو ناپسند کرتی ہے۔ لہٰذا وہاں کے ماحول کو بدلنے کی ضرورت ہے۔
جے این یو میں ’اسکول آف لینگویج لٹریچر اینڈ کلچر اسٹڈیز‘ کے تحت ’ہندوستانی زبانوں کے مرکز‘ میں استاد پروفیسر خواجہ اکرام الدین کا کہنا ہے کہ تعلیم یافتہ طبقہ سیاہ و سفید میں فرق جانتا ہے۔ جے این یو کے طلبہ بھی اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر صورتِ حال کو جانتے ہیں اور اس کے مطابق عمل کرتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ بائیں بازو کے امیدواروں کو صرف اس لیے ووٹ نہیں ملے کہ وہ بائیں بازو کے ہیں بلکہ ان کو اس لیے بھی ووٹ دیے گئے کہ طلبہ اے بی وی پی کی ہنگامہ آرائی کی سیاست کو پسند نہیں کرتے۔ لڑائی جھگڑا جے این یو کا مزاج رہا ہی نہیں۔
ان کے مطابق جے این یو طلبہ یونین کے انتخابی نتائج کو دوسری یونیورسٹیوں کے تناظر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ وہاں بھی طلبہ تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے جے این یو طلبہ یونین کے انتخابی نتائج کو یونیورسٹیوں کے کیمپسز کے لیے خوش آئند قرار دیا۔
یونیورسٹیوں کے حالات پر نظر رکھنے والے بعض مبصرین کا خیال ہے کہ دانش گاہوں میں سنجیدہ طلبہ کی تعداد زیادہ ہے جو صرف تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اسے نفرت انگیز سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
SEE ALSO: بھارت میں مسلم مخالف نفرت انگیزی میں اضافہ ہوا ہے: ریسرچ گروپاس حوالے سے ایک یو ٹیوب چینل ’ٹی وی سکس نیوز نیٹ ورک‘ کے ایک مباحثے میں جو کہ احمد آباد کی گجرات یونیورسٹی میں نمازِ تراویح کے دوران غیر ملکی طلبہ پر حملے کے سلسلے میں ہوا، بنارس ہندو یونیورسٹی کے ایک طالب علم رانا روہت کے خیالات جاننا دلچسپ ہو گا۔
انہوں نے مباحثے میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ ان کی یونیورسٹی میں بھی مذہب کے نام پر سیاست کی جاتی اور لوگوں کے دلوں میں نفرت کے بیج بونے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ طلبہ اس کو پسند نہیں کرتے۔ لیکن ڈر کی وجہ سے خاموش رہتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ یونیورسٹیوں کے ماحول کو خراب کر دیا گیا ہے۔ کیمپسز میں پہلے قلم کاغذ کی بات ہوتی تھی۔ اب ان کی جگہ تلوار اور ترشول نے لے لی ہے۔ طلبہ کے درمیان فیک پیغامات کے ذریعے نفرت کی سیاست کی جا رہی ہے۔ لیکن وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ یہ ماحول بدلے گا اور ایک دن کیمپسز میں پر امن ماحول ضرور لوٹ کر آئے گا۔
جے این یو کے ایک ریسرچ اسکالر محمد راشد چوہان نے نیوز ویب سائٹ‘دی کوینٹ‘ کے لیے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ جے این یو ہمیشہ متنوع ثقافت کی مشعل بردار رہی ہے۔ اسے منی انڈیا کہا جاتا ہے۔
انہوں نے 2017 میں پروفیسر عائشہ قدوائی کے ایک سروے کے حوالے سے بتایا کہ جے این یو میں مادری زبان کی حیثیت سے 179 زبانیں بولی جاتی ہیں۔
ان کے مطابق کیمپس میں متنوع ثقافت کی وجہ سے ہی جے این یو کو بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے لیکن یہ کوشش کامیاب نہیں ہوئی۔ یہاں تک کہ طلبہ پر حملہ بھی کیا گیا۔
خیال رہے کہ جنوری 2020 میں جے این یو کے ہاسٹلوں پر رات کے وقت اور پولیس کی موجودگی میں حملہ کیا گیا تھا جس میں اس وقت کی طلبہ یونین کی صدر آئشی گھوش سمیت کئی طلبہ زحمی ہوئے تھے۔
SEE ALSO: 'گاندھی اور جناح کے ہم آہنگی کے پیغامات کی آج پہلے سے بھی زیادہ ضرورت ہے'حملے کا الزام اے بی وی پی سے وابستہ طلبہ پر لگایا گیا تھا۔ لیکن ان کے خلاف آج تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ حالاں کہ حملے کے وقت کی سی سی ٹی وی فوٹیج میڈیا میں وائرل ہوئی تھی۔
پروفیسر اپوروانند نیوز ویب سائٹ ’دی وائر‘ کے لیے اپنے مضمون میں کہتے ہیں کہ طلبہ یونین کے نتائج کو جے این یو کے خلاف مہم کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
ان کے مطابق موجودہ وائس چانسلر شانتی شری دھولیپڈی پنڈت ہندوتو وادی تنظیم ’راشٹریہ سویم سیوک سنگھ‘ (آر ایس ایس) کے نظریات سے وفاداری کا فخریہ اعتراف کرتی ہیں۔
اپوروانند کو اندیشہ ہے کہ جے این یو انتظامیہ کسی بہانے سے ان نتائج کو کالعدم کر سکتی ہے۔