|
دہلی کے وزیرِ اعلیٰ اروند کیجریوال کی گرفتاری پر عالمی ردِ عمل آنے کا سلسلہ جاری ہے۔ امریکہ کے محکمۂ خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ امریکہ اروند کیجریوال کی گرفتاری کی رپورٹ پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے اور وہ ایک منصفانہ قانونی عمل کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔
کیجریوال کو 'انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ' (اے ڈی) نے دہلی کی شراب پالیسی سے متعلق رشوت ستانی کے الزامات پر جمعرات کو گرفتار کیا تھا۔ ان کی جماعت ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔
ارویند کیجریوال کی گرفتاری ایک ایسے وقت ہوئی ہے جب ملک میں آئندہ ماہ سے عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان نے اس معاملے پر ای میل کیے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ "ہم وزیرِاعلیٰ کیجریوال کے لیے منصفانہ، شفاف اور بروقت قانونی عمل کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔"
واضح رہے کہ ترجمان امریکی محکمۂ خارجہ کا یہ بیان جرمنی کے اس ردِعمل کے بعد سامنے آیا ہے جس پر بھارت کی جانب سے احتجاج کیا گیا تھا۔
جرمنی کے دفترِ خارجہ کے ترجمان سیباسٹین فشر نے جمعے کو ایک پریس کانفرنس میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا تھا کہ الزامات کا سامنا کرنے والے کسی اور شخص کی طرح ارویند کیجریوال بھی منصفانہ اور غیر جانب دارانہ ٹرائل کے حق دار ہیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ عدلیہ کی آزادی اور بنیادی جمہوری اصولوں سے متعلق معیارات اس کیس پر بھی لاگو ہوں گے۔
جرمنی کے اس بیان پر ہفتے کو بھارت نے احتجاج کرتے ہوئے نئی دہلی میں جرمنی کے سفارت خانے کے ڈپٹی چیف آف مشن کو طلب کیا۔
بھارت کی وزارتِ خارجہ کے مطابق جرمن سفیر کو طلب کر کے سخت احتجاج کیا گیا۔
وزارتِ خارجہ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ہم ایسے ریمارکس کو ہمارے عدالتی عمل میں مداخلت اور عدلیہ کی آزادی کو مجروح کرنے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر متعصبانہ مفروضہ سب سے زیادہ غیر ضروری ہے۔
بھارت کے جرمنی سے احتجاج سے متعلق سوال پر ترجمان امریکی محکمۂ خارجہ کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر جرمنی کی وزارتِ خارجہ سے معلوم کیا جائے۔
امریکی محکمۂ خارجہ کے ردِعمل پر واشنگٹن میں بھارت کے سفارت خانے کی جانب سے فوری طور پر کوئی ردِعمل نہیں آیا ہے۔
بھارت کی حکومت اور نریندر مودی کی قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کیجریوال اور ان کی جماعت عام آدمی پارٹی کے دیگر رہنماؤں کے معاملے میں کسی بھی قسم کی سیاسی مداخلت سے انکار کرتی ہے۔
اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے لی گئی ہیں۔
فورم