امریکی سپریم کورٹ نے پھانسی دینے کے لئے متنازعہ اودیات کے جان لیوا انجکشن کے استعمال کو جائز قرار دے دیا ہے۔
عدالت نے سوموار کو چار کے مقابلے میں پانچ کی اکثریت سے فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ درد کم کرنے والے میڈازولام کا استعمال آئین کی آٹھویں ترمیم کے مطابق غیر معمولی اور تکلیف دہ سزا پر پابندی کی خلاف ورزی نہیں ہے۔
وسط مشرقی امریکی ریاست، اوکلوہاما کے مکین کی موت پر دلائل دئے گئے تھے کہ جان لیوا انجکشن میں استعمال ہونے والی تین ادویات میں سے درد کم کرنے والی ’سیڈیٹو‘ گہری بے ہوشی نہیں لاتی۔ اس لئے اسے دل کو روکنے اور جسم کو مفلوج کر دینے والی ادویات میں شامل نہ کیا جائے۔
اوکلوہاما میں کلےٹون لوکیٹ کی بدترین پھانسی کے لئے اسی دوا کا استعمال کیا گیا تھا۔ تاہم، موت سے پہلے ملزم نے جدوجہد کی اور سر اٹھایا۔ پہلے انجکشن کے بعد اس کی موت کے اعلان میں 43 منٹ کا وقت لگا۔
سپریم کورٹ کی جج جسٹس سونیا سوٹومائر نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا ہے کہ متنازعہ ادویات کے استعمال سے سخت تکلیف میں موت آہستہ آہستہ واقع ہوتی ہے، یعنی یہ دراصل گیلی لکڑی کو آگ لگانے کے مترادف ہے۔
جسٹس سموئل الیٹو نے اکثریتی رائے دیتے ہوئے اپنے نوٹ میں لکھا ہے کہ دلیل میں یہ قیاس کیا گیا ہے کہ بے ہوشی کے لئے استعمال کی گئی دوا مؤثر نہیں۔ انھوں نے جسٹس سوٹومائر کے اختلافی نوٹ کو حران کُن قرار دیا۔
ایک دوسرے اختلافی نوٹ میں جسٹس اسٹیفن بریئر اور روتھ باڈر گنگسبرگ نے کہا کہ خود اس بات پر عدالت کو بحث کرنی چاہئے کہ خود سزائے آئینی ہے یا نہیں؟
سزائے موت کے حق میں امریکی عوام کی رائے ماضی کے مقابلے میں کم ہوئی، لیکن اب بھی اکثریتی 60 فیصد لوگ سزائے موت کے حق میں ہیں۔
بہت سی ریاستوں میں جہاں پہلے سزائے موت دی جاتی تھی، اب یا تو معطل ہوچکی ہے یا پھر ختم کر دیا گیا ہے اور اب صرف 32 ریاستوں میں سزائےموت دی جاتی ہے۔