صحافی عمران ریاض خان کی بازیابی کیس کی سماعت کے دوران ان کے وکیل نے عدالت کوبتایا ہے کہ عید سے قبل عمران ریاض کی رہائی کی امید تھی اور اب ان کے موکل کی بازیابی میں کچھ انتظامی رکاوٹیں باقی ہیں۔
لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس امیر حسین بھٹی نے بدھ کو عمران ریاض کی بازیابی سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
دورانِ سماعت پنجاب پولیس کے ڈی آئی جی اور ڈی پی او سیالکوٹ پیش ہوئے۔ مقامی میڈیا کے مطابق وزارتِ دفاع کے نمائندے نے بھی عدالت میں دلائل دیے۔
عمران ریاض خان کے وکیل میاں علی اشفاق ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا" ہم نے ورکنگ کمیٹی کے کافی اجلاس اٹینڈ کیے ہیں جس کے بعد امید تھی کہ عمران ریاض جلد بازیاب ہو جائیں گے۔"
چیف جسٹس امیر حسین بھٹی نے عمران ریاض کی بازیابی کے لیے انتظامی رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے 20 دن کا وقت دیا ہے۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت 25 جولائی تک ملتوی کر دی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
عمران ریاض خان کو نو مئی کو سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد ہونے والے پرتشدد ہنگاموں کے بعد تھری ایم پی او کے تحت حراست میں لیا گیا تھا۔
عمران ریاض بازیابی کیس میں پنجاب پولیس کی جانب سے عدالت میں جمع کرائی گئی رپورٹ کے مطابق عمران ریاض کو 11 مئی کی رات ڈسٹرکٹ جیل سیالکوٹ سے رہا کیا گیا تھا۔
رہائی کے فورأ بعد چند نقاب پوش افراد عمران ریاض کو اپنے ساتھ گاڑی میں بٹھا کر نامعلوم مقام پر لے گئے تھے۔ مذکورہ کیس میں وزارتِ داخلہ اور پنجاب پولیس کی جانب سے عدالت میں دیے گئے بیانات کے مطابق وہ اب تک ان افراد تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔
SEE ALSO: عمران ریاض کی گمشدگی؛ 'پورا خاندان رات بھر جاگتا ہے کہ شاید کوئی اطلاع آ جائے'عمران ریاض خان کو پاکستان تحریکِ انصاف کا حامی اور ملک کی طاقت ور اسٹیبلشمنٹ کا ناقد سمجھا جاتا ہے۔ عمران ریاض سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کی منظوری کے بعد سے ہی سوشل میڈیا پر خاصے سرگرم تھے اور مقتدر حلقوں کو تنقید کا نشانہ بناتے تھے۔
صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم رپورٹر ود آؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) سمیت دیگر عالمی تنظیمیں بھی عمران ریاض خان کی فوری بازیابی کے مطالبات کر چکی ہیں۔