لاہور ہائی کورٹ نے کالعدم جماعت تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے سربراہ سعد حسین رضوی کی نظر بندی کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔ تاہم قانونی ماہرین سمجھتے ہیں کہ سعد رضوی کے خلاف مختلف مقدمات درج ہیں اور فی الحال انہیں رہائی ملنا ممکن نہیں۔
لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس طارق سلیم شیخ نے جمعے کو سعد رضوی کی نظر بندی کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزار کی طرف سے برہان معظم ملک ایڈووکیٹ جب کہ وفاقی حکومت کی طرف سے ڈپٹی اٹارنی جنرل اسد علی باجوہ عدالت میں پیش ہوئے۔
سماعت کے آغاز میں سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ حکومت کسی کی نظر بندی کی منظوری ماضی کے فیصلوں کی روشنی میں دے سکتی ہے اور اس حوالے سے حکومتی نوٹی فکیشن جاری کرنے کے حق میں عدالتی فیصلے موجود ہیں۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ رولز آف بزنس کے تحت غیر معمولی صورتِ حال میں کابینہ کی منظوری کے بغیر احکامات جاری کیے جا سکتے ہیں۔
جس پر جسٹس طارق سلیم نے استفسار کیاکہ ایم پی او اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کا قانون تو مختلف ہے لیکن سعد رضوی کی دوبارہ نظر بندی کی کیا نئی وجوہات ہیں؟ اس حوالے سے عدالت کو ممطئن کریں۔
سرکاری وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ سعد رضوی کی دوبارہ نظر بندی کی وجوہات میں صوبائی اور ضلعی انٹیلی جنس کمیٹیوں کی سفارشات ہیں۔ ان کے بقول انٹیلی جنس ایجنسیوں کے مطابق ٹی ایل پی کی شوریٰ کے اراکین سعد رضوی کی نظر بندی کے لیے بے تاب ہیں اور وہ ان کی رہائی پر دوبارہ احتجاج جاری رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
SEE ALSO: تحریک لبیک کا معاملہ کیسے ’ہینڈل‘ کیا گیا؟ تجزیہ کاروں کی رائےاسد علی باجوہ نے عدالت کو مزید بتایا کہ ٹی ایل پی مجلس شوریٰ سعد رضوی کی رہائی کے بعد حکومت پر دباؤ بڑھانے کا بھی ارادہ رکھتی ہے۔
واضح رہے کہ سعد رضوی اپنے والد خادم حسین رضوی کے انتقال کے بعد ٹی ایل پی کے سربراہ مقرر ہوئے تھے۔ جو رواں برس بارہ اپریل سے کوٹ لکھپت جیل لاہور میں قید ہیں۔
فرانس میں پیغمبرِ اسلام کے خاکوں کی اشاعت کے خلاف ٹی ایل پی نے ملک بھر میں احتجاج کیا تھا اور ملک سے فرانسیسی سفیر کو بے دخل کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
بعدازاں حکومت نے امن و امان میں خلل کے شبے کے پیشِ نظر سعد رضوی کو حراست میں لے لیا تھا جس کے نتیجے میں ٹی ایل پی کے کارکنوں نے پاکستان بھر میں اُن کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کیا۔
سعد رضوی کی نظر بندی کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران ان کے وکیل برہان معظم نے اپنے دلائل میں کہا کہ 2018 سے پہلے تک سعد رضوی کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں تھا لیکن 2018 میں جو مقدمہ درج کیا گیا اس میں گرفتاری ہی نہیں ڈالی گئی۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ فرانسیسی سفیر کی ملک سے بے دخلی کے مطالبے پر حکومت اور ٹی ایل پی کے درمیان جو پہلا معاہدہ ہوا تھا اس کے بعد سعد رضوی کو دہشت گرد قرار دیا گیا۔
وکیلِ صفائی نے مؤقف اختیار کیا کہ جس معاہدے کو حکومتی وکیل غیر قانونی کہہ رہے ہیں وہی معاہدہ پارلیمنٹ میں پیش کیا جا چکا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کے بقول سعد رضوی کی دوباہ نظر بندی کے لیے رولز آف بزنس کے تحت وزرا کی منظوری نہیں لی گئی جب کہ واٹس ایپ کے پرنٹس کے ذریعے وزرا کے دستخط لیے گئے ہیں۔
واضح رہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے نظر ثانی بورڈ نے سعد رضوی کی نظر بندی میں توسیع کی حکومتی درخواست دو جولائی کو مسترد کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔
تاہم محکمۂ داخلہ پنجاب نے نظرثانی بورڈ سے سعد رضوی کی نظر بندی میں توسیع کی استدعا کی تھی۔ توسیع نہ ہونے پر سعد رضوی کو انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 11 EEE کے تحت 10 جولائی کو دوبارہ نظر بند کر دیا گیا تھا۔
ماہرِ قانون سیف الملوک سمجھتے ہیں کہ عدالتی فیصلے کے بعد سعد حسین رضوی رہا بھی ہو سکیں گے یا نہیں۔ اِس سلسلے میں پولیس ریکارڈ کو چیک کرنا ہو گا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سیف الملوک نے کہا کہ سعد رضوی کے خلاف مختلف دفعات کے تحت مقدمات درج ہیں لیکن ہائی کورٹ نے صرف اُن کی نظر بندی کو ختم کیا ہے البتہ ان کے خلاف مقدمات بدستور قائم ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سعد رضوی کے خلاف مقدمات کا معاملہ نہ عدالت میں زیرِ بحث آیا اور نہ ہی اُن پر عدالت نے کوئی احکامات جاری کیے ہیں۔
SEE ALSO: ’فرانس کے سفیر کو نکالنے کی قرارداد کا حکومت سے تعلق نہیں‘سیف الملوک کے بقول اگر سعد رضوی کی نظر بندی سے قبل یا نظر بندی کے دوران پولیس نے ان کی گرفتاری روزنامچے میں درج کی ہے تو اِس صورت میں وہ رہا نہیں ہو سکتے۔ بصورتِ دیگر سعد حسین رضوی رہا ہو سکیں گے۔
سیف الملوک بتاتے ہیں کہ قانون کے مطابق اگر کسی بھی شخص کی درج کیے گئے مقدمات میں پولیس نے گرفتاری ڈالی ہو تو ملزم کا وارنٹ جیل میں چلا جاتا ہے اور جب تک اُس کی ضمانت کا حکم جیل نہیں جاتا، تب تک جیل حکام کسی بھی ایسے شخص کو رہا نہیں کریں گے۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ اگر پولیس نے کسی بھی شخص کی گرفتاری نہ ڈالی ہو تو وہ شخص نظر بندی ختم ہونے کے بعد رہا ہو جاتا ہے۔
اطلاعات کے مطابق پولیس نے سعد رضوی کی گرفتاری کو اپنے کاغذوں میں درج نہیں کیا ہوا۔
سعد حسین کی نظر بندی کا پس منظر
گزشتہ برس فرانس میں پیغمبر اسلام کے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت پر ٹی ایل پی نے اسلام آباد میں احتجاج کیا تھا اور یہ احتجاج 16 نومبر کو حکومت کے ساتھ ایک معاہدے کے بعد ختم کر دیا گیا تھا۔
معاہدے میں کہا گیا تھا کہ حکومت فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے سے متعلق تین ماہ میں پارلیمنٹ میں قرار پیش کرے گی اور پاکستان فرانس میں اپنا سفیر مقرر نہیں کرے گا۔
بعد ازاں ٹی ایل پی نے جنوری میں حکومت کو خبردار کیا کہ اگر 17 فروری 2021 تک توہینِ رسالت کے معاملے پر فرانسیسی سفیر کو پاکستان سے نکالنے کا اپنا وعدہ پورا نہ کیا تو وہ اپنا احتجاج دوبارہ شروع کرے گی۔
مطالبات کی عدم منظوری پر ٹی ایل پی نے 16 فروری کو پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی طرف مارچ اور احتجاجی دھرنے کا اعلان کیا۔ جس کے بعد ٹی ایل پی اور حکومت کے درمیان گستاخانہ خاکوں کی اشاعت پر فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنے کے معاملے پر ایک اور معاہدہ طے پایا۔
نئے معاہدے کے تحت 20 اپریل 2021 تک فرانسیسی سفیر کو ملک سے بے دخل کرنے سے متعلق قرار داد پارلیمنٹ میں پیش کیا جانا شامل تھا۔
واضح رہے کہ حکومت کی جانب سے مطالبات کی عدم منظوری اور معاہدے پر عمل درآمد نہ کیے جانے پر ٹی ایل پی نے 20 اپریل کو پاکستان بھر میں احتجاجی مظاہروں کا اعلان کیا۔ جس کے بعد حکومت نے نقصِ امن کے خدشے کے پیشِ نظر سعد رضوی کو حراست میں لے لیا۔
سعد رضوی کے خلاف صوبہ پنجاب میں مختلف مقدمات بھی درج ہیں جن میں دہشت گردی کی دفعات سمیت دیگر دفعات لگائی گئی ہیں۔