لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس شاہد بلال نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی لاہور میں واقع رہائش گاہ کو سرکاری پناہ گاہ میں تبدیل کرنے کے خلاف حکم امتناع جاری کرتے ہوئے حکومت سے 10 دن میں جواب طلب کر لیا ہے۔
سابق وزیر خزانہ کی اہلیہ تبسم ڈار نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔ جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ حکومت پنجاب نے غیر قانونی طور پر لاہور کے علاقے گلبرگ میں واقع اُن کے گھر کو پناہ گاہ میں تبدیل کیا ہے۔
درخواست میں کہا گیا تھا کہ پنجاب حکومت نے ہائی کورٹ کے حکم کی بھی خلاف ورزی کی ہے۔ حکومت مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنا رہی ہے۔
یہ بھی کہا گیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے رہائش گاہ کی نیلامی کے خلاف حکم امتناع جاری کر رکھا ہے۔ یہ رہائش 1988 سے اُن کا گھر ہے۔ حکومت کا یہ اقدام آئین اور قانون کے خلاف ہے۔ عدالت حکومت پنجاب کے اقدام کو کالعدم قرار دے۔
جس پر لاہور ہائی کورٹ نے اسحاق ڈار کی اہلیہ کی درخواست پر صوبائی حکومت سے 10 دن میں جواب طلب کرتے ہوئے اسحاق ڈار کے گھر کو پناہ گاہ میں تبدیل کرنے کے خلاف حکم امتناع جاری کر دیا۔
حکومت پنجاب دو روز قبل سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے گھر میں بے گھر افراد کے لیے سرکاری پناہ گاہ قائم کی تھی۔
دفتر کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ہجویری ہاؤس کی نیلامی پر عدالت نے حکم امتناع جاری کیا تھا جس کے بعد پنجاب حکومت نے اِسے پناہ گاہ بنانے کا فیصلہ کیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے حکم کی پابندی کرتے ہوئے اسحاق ڈار کے گھر میں 12 کمروں میں بیڈ لگوا دیے تھے جب کہ وہاں کھانے پینے سمیت دیگر انتظامات بھی کر دیے تھے۔
ان کے بقول عملہ بھی تعینات کر دیا تھا اور رات کو وہاں مزدوروں کو ٹھہرایا بھی گیا تھا۔ اسحاق ڈار کے گھر کے باہر سے ہجویری ہاؤس کی تختی اُتار کر وہاں پناہ گاہ کا بورڈ آویزاں کر دیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ عدالت کا حکم ہمیں ابھی موصول نہیں ہوا۔ حکام جو بھی حکم ہمیں دیں گے ہم اُس پر عمل کریں گے۔
اس حوالے سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے ایک بیان میں کہا کہ سیاسی مخالفین کے گھروں پر قبضے افسوسناک اور منفی روایت ہے۔ ایسی گری ہوئی حرکتوں سے اسحاق ڈار اور مسلم لیگ (ن) کے حوصلے پست نہیں ہوں گے۔
پنجاب حکومت کی ترجمان اور رکن صوبائی اسمبلی مسرت جمشید چیمہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ تحریک انصاف اور پنجاب حکومت عدالت کے فیصلے کو مانے گی۔ پنجاب حکومت بھی فیصلے پر عدالت سے رجوع کرے گی۔ کبھی بھی عدالتوں کے فیصلوں کو ماننے سے انکار نہیں کیا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے مسرت جمشید چیمہ نے کہا کہ اسحاق ڈار کو متعدد بار نوٹس بھجوائے گئے لیکن وہ پاکستان نہیں آئے اور نہ ہی عدالتوں اور نیب میں اُن کے خلاف کیسز کا سامنے کیا۔
ان کے بقول حکومت چاہتی تو اُن کے گھر کو نیلام کر سکتی تھی لیکن پنجاب حکومت نے یہ سوچا کہ اسحاق ڈار کے گھر کا بہتر استعمال کیا جائے اِسی لیے اُن کے گھر کو پناہ گاہ میں تبدیل کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے قانون اور قاعدے کے مطابق اِس گھر کو پناہ گاہ میں تبدیل کیا تھا۔ ہم نے کسی بھی سیاسی مخالف کو انتقامی کارروائی کا نشانہ نہیں بنایا۔ ہم جب بھی ان سے ماڈل ٹاؤن والے گھر، جاتی امراء والے گھر اور جائیدادوں کی منی ٹریل مانگیں گے تو وہ نہیں ملیں گی۔
حکومت پنجاب نے چند روز قبل گلبرگ-تھری میں واقع اسحاق ڈار کی رہائش گاہ ہجویری ہاؤس کو نیلام کرنے کا اعلان کیا تھا۔
اس نیلامی کے لیے تاریخ اور وقت بھی مقرر کی گئی تھی لیکن نیلامی والے دن کوئی بھی گاہک موقع پر نہیں آیا۔ جس پر حکومت نے اسحاق ڈار کے گھر ہجویری ہاوس کی نیلامی کو ملتوی کر دی تھی۔
مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں وفاقی وزیر خزانہ رہنے والے اسحاق ڈار قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کے سمدھی ہیں اور اِن دِنوں لندن میں مقیم ہیں۔
اسحاق ڈار کے خلاف نیب اور پاکستان کی عدالتوں میں آمدن سے زائد اثاثوں کے کیسز زیر التو ہیں۔ وہ اِن کیسز اور نیب کی تفتیش میں ایک مرتبہ بھی پیش نہیں ہوئے۔ ان کو تحریک انصاف کی حکومت نے انٹرپول کے ذریعے گرفتار کر کے پاکستان لانا چاہا لیکن اِس میں کامیاب نہ ہو سکی۔
لاہور میں واقع اسحاق ڈار کا گھر اِس سے قبل بھی خبروں میں رہ چکا ہے۔ جب 2017 میں اُس وقت کے چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار نے عوامی پارک کی جگہ کو ہجویری ہاوس کا حصہ بنانے پر خفگی کا اظہار کرتے ہوئے پارک کو اصل حالت میں بحال کرنے کا حکم دیا تھا۔